بھارت کی طرف سے کنٹرول لائن پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے تازہ واقعہ میں 3پاکستانی فوجی اور 2شہری شہید ہو گئے ہیں۔ بھارتی فائرنگ سے کئی مکانات اور گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ پاکستانی فوج کی جوابی کارروائی میں بھارت کے 5اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ پاک فوج نے جوابی کارروائی میں بھارت کے متعدد بنکرز کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ بھارت کی طرف سے جنگ بندی معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کے واقعات جاری ہیں۔ ایک سال میں پاکستان کے درجنوں فوجی اور 200سے زائد کشمیری شہری اس اشتعال انگیز فائرنگ اور گولہ باری سے شہید ہو چکے ہیں۔ 1948ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد اقوام متحدہ کی مداخلت پر آزاد اور مقبوضہ کشمیر کے مابین ایک حد فاصل طے کر دی گئی اس حد کو سیز فائر لائن کہا جاتا ہے۔ بعدازاں یہی سیز فائر لائن ایل او سی کہلائے جانے لگی۔ یہ سیز فائر لائن پاکستان اوربھارت کی افواج کی مسلسل نگرانی میں رہتی ہے۔ اسے بین الاقوامی سرحد کا درجہ حاصل نہیں۔ کشمیری عوام کی اکثریت کنٹرول لائن کو تسلیم نہیں کرتی اور وہ اسے کشمیر کے ٹکڑے کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔1971ء میں پاکستان اوربھارت کشمیر کی وجہ سے تیسری بار جنگ آزما ہوئے۔ اس جنگ کے خاتمے پر 1972ء میں سیز فائر لائن کو لائن آف کنٹرول قرار دیا گیا۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کو آزاد کشمیر میں تعینات کرنے کی درخواست کی جبکہ بھارت نے مقبوضہ علاقے میں اقوام متحدہ کے مبصرین کو داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ بھارت نے مختلف ادوار میں لائن آف کنٹرول پر اپنی طاقت بڑھانے کے مختلف منصوبوں پر کام کیا۔ یہ رجحان دیکھا گیا ہے کہ بھارت جب بھی کشمیر میں غیر معمولی اقدام کرتا ہے اس کی افواج ایل او سی پر اپنی نفری اور اسلحہ بڑھا دیتی ہیں۔ حالیہ دنوں بی جے پی حکومت نے بھارتی آئین میں کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کی ضمانت شق 370اور 35اے کا خاتمہ کرکے مقبوضہ کشمیر کے الگ آئین کا وجود ملیا میٹ کر دیا۔ بھارتی شہریوں کو اجازت دیدی گئی ہے کہ وہ جموں و کشمیراور لداخ کے علاقوں میں جائیداد خرید سکیں، یہاں کاروبار کر سکیں اور اپنا ووٹ ڈال سکیں۔ 5اگست کو یہ یکطرفہ اقدام کرنے سے پہلے بھارت نے جموں و کشمیر میں ایک لاکھ مزید فوج تعینات کر دی۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرفیو سی کیفیت ہے اور کشمیریوں کے خلاف جبر‘ تشدد اور قید کے حربے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ کنٹرول لائن پر گڑ بڑ کے بعض منصوبوں سے پاک فوج آگاہ ہے۔ چند روز قبل یہ رپورٹ منظر عام پر آئی کہ بھارتی فوج نے کنٹرول لائن کے قریب اپنے زیر انتظام علاقے میں جگہ جگہ پاکستانی پرچم لگا رکھے ہیں۔ بتایا گیا کہ بھارت اس علاقے کو پاکستانی علاقہ بتا کر یہاں ایک فرضی سرجیکل سٹرائیک کی فلم بنا رہا ہے۔ ایسی فلموں کو بین الاقوامی فورمز پر دکھا کر بی جے پی جہاں جنگی جنون میں گرفتار اپنے اذیت پسند حامیوںکی تسکین کا انتظام کر رہی ہے وہیں وہ خود کو پاکستان کے مقابلے میں زیادہ بہادر اور طاقتور ظاہر کرنا چاہتی ہے۔ کنٹرول لائن پر نہتے اور معصوم شہریوں کو نشانہ بنانا بذات خود عالمی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ بھارت کی فائرنگ سے زیادہ تر عام کشمیری شہری شہید ہوتے ہیں۔ یہ تسلیم شدہ جنگی جرم ہے جس کے ارتکاب پر بھارت کو متعدد عالمی پابندیوں کا سامنا ہو سکتا ہے تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ عالمی برادری کنٹرول لائن پر بھارت کی غیر قانونی اور انسانیت کش سرگرمیوں کا نوٹس لے۔ چند ہفتے قبل بھارتی افواج نے لائن آف کنٹرول پر کلسٹر بموں کا استعمال کیا۔ دنیا کے بہت سے ممالک نے کلسٹر بم کے استعمال پر پابندی لگا رکھی ہے۔ عموماً یہ بم بچوں کو اپنی طرف راغب کرتا ہے اور جونہی وہ اس کی رنگ برنگی ٹکڑیوں کی طرف لپکتے ہیں یہ پھٹ جاتی ہیں اور جان لے لیتی ہیں۔ پاکستان نے ایل او سی پر بھارتی فوج کی طرف سے کلسٹر بم کے استعمال کے ثبوت اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو فراہم کر دیے ہیں۔ بھارت نے پورے مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان ایل او سی پر آہنی باڑ نصب کر رکھی ہے۔ کسی ذی روح کے لئے ممکن نہیں کہ وہ اس باڑ کو عبور کر سکے اس کے باوجود بھارت در اندازی کا الزام لگا کر اپنی غیر قانونی فائرنگ کو جوازفراہم کرتا رہتا ہے۔لائن آف کنٹرول پر بھارتی فائرنگ کی ایک نئی خصوصیت یہ ہے کہ اس بار بھارت ایل او سی سے دور ان علاقوں کو نشانہ بنا رہا ہے جہاں پہلے بھارتی فائرنگ یا گولہ باری کبھی نہیں ہوئی۔ ایسی ہی فائرنگ کے دوران گڑھی دوپٹہ میں وہ علاقہ متاثر ہوا جہاں ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا دفتر واقع ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بھارتی فوج شہری تنصیبات اور سویلین آبادی کو نشانہ بنا کر علاقے میں خوف کی فضا برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ ایل او سی پر فائرنگ اور گولہ باری کا ایک مقصد وادی نیلم اور اس سے ملحقہ علاقوں میں سیاحت کی غرض سے آنے والے لوگوں کو روکنا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی طرح آزاد کشمیر کے لوگوں کے ذرائع آمدن بھی جنگ کے خدشات کے زیر اثر سکڑتے رہیں۔ مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے درمیان جنگ بندی لائن اور پھر اسے لائن آف کنٹرول کا درجہ دینے میں اقوام متحدہ کا کلیدی کردار رہا ہے۔بلا شبہ ایل او سی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر دو طرفہ جانی نقصان کا سلسلہ رکا ہے مگر بھارت نے وقفے وقفے سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کر کے دونوں طرف آباد کشمیریوں کی زندگی کے لئے خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ جس طرح اقوام متحدہ کا بنیادی کردار جنگوں کو روکنا ہے اسی طرح سرحدی کشیدگی یا جنگ بندی معاہدوں کی خلاف ورزی کا سلسلہ روکنا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ بھارت کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ ایک علاقے پر قابض رہے اور نہتے کشمیریوں کی زندگی کے لئے خطرات پیدا کرتا رہے۔