انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مقبوضہ کشمیرمیں نافذبھارت کے کالے قوانین پرشدیدبرہمی کااظہارکرتے ہوئے ان کی منسوخی کے لئے فوری اقدام اٹھانے کے لئے ایک بارپھراپنی صدا بلندکی ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مقبوضہ کشمیرمیں بھارت کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالیوں پراپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہاکہ مقبوضہ کشمیرمیں نافذ بھارت کے کالے قوانین میں سے ایک پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA)ایک ایسا کالاقانون ہے جوعالمی قوانین کونظراندازکرتے ہوئے اورمروجہ عدالتی نظام کو بالائے طاق رکھ کر انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیرتاہے۔ایمنسٹی نے مقبوضہ کشمیرکی صورتحال پراپنی اس رپورٹ میں اعدادو شمار ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیرمیں 2007سے2016تک 2400سے زائد افراد کو اس کالے قانون کے تحت عقوبت خانوں میںبند رکھا گیا جن میں سے58فیصدحکم ناموں کومقامی عدالتوں نے کالعدم قرار دیا۔لیکن اس کے باوجودانہیں رہانہیں کیاگیا۔خیال رہے کہ بھارت کانافذ کردہ یہ کالا قانون مقبوضہ کشمیرکے کسی بھی شخص کوبلاوارنٹ کے گرفتارکرکے دو سال تک جیل میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ سرینگر کے ایک مقامی ہوٹل میں بدھ 12جون کوایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرکو اس رپورٹ کا خلاصہ میڈیا کے سامنے پیش کرنا تھا،تاہم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق کٹھ پتلی ریاستی انتظامیہ کی طرف سے انہیں اس کی اجازت نہیں دی گئی، جس کے بعد میڈیا بریفنگ کو رد کیا گیا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے اس امرپربھی شدیدافسوس کااظہار کیاگیاکہ بدنام زمانہ اس کالے قانون (PSA) کے تحت بلا الزام مقدمہ اور نظربندی کی رپورٹ منظر عام پر لانے پرکٹھ پتلی سرکارنے روک لگا کرہمیشہ کی طرح اس باربھی مقبوضہ کشمیرکے اصل حقائق اور حقیقی صورتحال کو دنیاتک پہنچانے نہ دیا اور ایمنسٹی کی کاوشوں میں روڑے اٹکائے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے خلاصے میں سال 2012ء سے2018ء کے درمیان (PSA)کے کالے قانون کے تحت مقبوضہ کشمیراوربھارت کی مختلف جیلوں ،عقوبت خانوں اورٹارچر سیلوں میں مقید 210کشمیریوںکے مقدمات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا برانچ کے سربراہ آ کار پٹیل نے رپورٹ کے خلاصہ میں بتایا کہ مقبوضہ کشمیرمیں بھارت کے نافذکردہ (PSA) قانون کو کس طرح بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کرکے کشمیریوں کوقیدکرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اوراس قانون کی وجہ سے مقبوضہ کشمیرکی ساری آبادی شدیدقسم کی ذہنی پریشانی میں مبتلا ہے اس لئے اسے فورا منسوخ کردیا جائے۔آکار پٹیل کاکہناتھاکہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ باقاعدگی سے حراست کے ان تمام احکامات کو رد کرتا رہا ہے ، لیکن انتظامیہ کی طرف سے ہربار اسے مستردکردیاگیا جس کے باعث ریاستی مظالم جاری رہنے کے حوالے سے مقبوضہ کشمیرکی زمینی صورتحال میںکوئی بدلائو آیااورنہ ہی بھارت پرکوئی اثر دکھائی دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ (PSA) قانون کا متن بذات خود بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے تحت بھارت پر عائدکئی ذمہ داریوں کا انکار کرتا ہے اور ان ذمہ داریوں میں قیدیوں کے منصفانہ مقدمے کے حقوق کا احترام بھی شامل ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے خلاصے میں کشمیری قیدیوں کے کئی سرکاری دستاویزات اور نظربندافراد کے قانونی کاغذات کی جانچ پڑتال کرکے یہ دکھایا گیا ہے کس طرح مقبوضہ جموں و کشمیرکی کٹھ پتلی انتظامیہ(PSA)کے ذریعہ انسانی حقوق کی پامالی کررہی ہے جن میں بچوں کی نظربندی، (PSA) کی تمام احتیاطی تدابیر کو نظرانداز کرکے مبہم انداز میں احکامات صادر کرنا اور قیدیوںکی ضمانت پر رہائی سے روکنا شامل ہے۔رپورٹ کے خلاصے میں نا بالغ بچوں اور جسمانی طور پر معذور افراد کے علاوہ بزرگ شہریوں کو بھی اس قانون کے عتاب کا شکار قرار دیا گیا ہے۔رپورٹ میں اعدادو شمار ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ2007ء سے2016ء تک2400سے زائد افراد کو اس قانون کے تحت بند رکھا گیا۔ رپورٹ میں مقبوضہ کشمیرکی کٹھ پتلی سرکارکی رپورٹوں کو متضاد قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ حق اطلاعات قانون کے تحت درخواستوںسے حاصل شدہ معلومات کے مطابق مارچ2016ء اور اگست2017ء کے درمیان زائد از1000افراد پر (PSA) عائد کیا گیا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا برانچ نے اپنی اس رپورٹ میں اس بات کا خلاصہ کیا ہے کہ چکر الوں حراستی دروازہ’’ ریوالونگ ڈور ڈٹنشن‘‘کے 71واقعات میں کٹھ پتلی حکام نے یا تو حراست میں لینے کا نیا حکم جاری کیا، یامقیدشخص کو ایک نئی(FIR) ذریعے پکڑا گیا تاکہ وہ ضمانت پر چھوٹ نہ سکے۔ایمنسٹی کی جاری کردہ اس تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 90فیصد واقعات میں پایا گیا کہ مقید افراد کو ایک ہی الزام میں(PSA) قانون اور کسی دوسرے کالے قانون دونوں کے تحت کی جانے والی کاروائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ میں بتایا گیاکہ قابض فورسز(PSA) کو سکیورٹی نیٹ’’سلامتی جال‘‘کے طور پر استعمال کرتی ہے تاکہ قیدسے رہا ہونے والے افراد کو یا انہیں جو ضمانت پر رہا ہو سکتے ہیں کوحراست میں رکھ سکے۔ ایمنسٹی کے عہدے داران کاکہناتھاکہ سری نگرمیں مقامی وکیلوںسے بات چیت کے دوران انہیں اس امرکاصحیح اندازہ ہوا کہ ریاستی پولیس اوردیگرقابض فورسزکسی ایسے قانون کے تحت کارروائی کو ترجیح نہیں دیتی کیوں کہ اس کے لیے مضبوط ثبوت اور بے گناہی کے امکانات کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے۔ اس دوران مقبوضہ کشمیرکے ضلع اسلام آبادمیں مجاہدین نے بھارت کی قابض فوج کو ہدف بناتے ہوئے ایک فوجی کیمپ پر حملہ کردیا،جس کے نتیجے میںبھارتی فوج کے 2افسروںسمیت7فوجی اہلکار ہلاک ہوئے،جبکہ ایک پولیس افسر سمیت نصف درجن اہلکار زخمی ہوئے۔ سی آر پی ایف کے116بٹالین بی کمپنی سے وابستہ ہلاک شدہ اہلکاروںمیں سے چندایک کی شناخت ہوئی ہے۔ مجاہدین کی طرف سے یہ حملہ12جون بدھ کی شام4بجکر55منٹ پرضلع اسلام آبادکے کھنہ بل،پہلگام روڑ پر آکسفورڈ اسکول کے نزدیک سی آر پی ایف و پولیس کی مشترکہ ناکہ پارٹی پرکیاگیا۔اس دوران حملے میں پولیس تھانہ صدر کے ایس ایچ او ارشد خان بھی زخمی ہوا۔ایس ایچ او ارشد خان کی چھاتی میں گولی پیوست ہوئی،اور اسے نازک حالت میں سرینگر اسپتال منتقل کیا گیا،جبکہ سی آر پی ایف سے وابستہ اہلکاروں کو سری نگرکے بادامی باغ کے فوجی ہیڈکوارٹر میں قائم فوج کے92بیس اسپتال منتقل کیا گیاجہاں انکی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔