کورونا کے مہلک وائرس کے ہاتھوں دنیا بھر میں جانی اور معاشی نقصانات کا سلسلہ تھمنے کی بجائے بدستورجاری ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ آفت مزید کتنی انسانی جانوں کو نگل لے گی اور دنیاکومزیداس سے کتنے ٹریلین ڈالر کا مالی نقصان ہوگا۔ترقی پذیر ملکوں میں چند ایک ممالک کے سوا باقی ملکوں میں اس وبا سے نقصانات ضرور ہوئے ہیں تاہم یورپ اور امریکہ کی نسبت یہ نقصانات اب بھی بہت کم ہیں۔لیکن بدقسمتی سے ان چند ملکوں میںپاکستان بھی اب شامل ہوگیاہے جہاں ہرروز سترسے سوافرادکے درمیان لوگ ہلاک اور ہزاروں کی تعداد میں متاثر ہورہے ہیں۔ پاکستان میں اس وبا کاتشویشناک حدتک بڑھنے کا اصل سبب ملک کے حکمران طبقات کے بیچ تعاون کے عدم فقدان اور سنجید ہ لاک ڈاون کرنے میں بے جا ہچکچاہٹ تھی۔ عیدالفطر کو آدھاتیتراورآدھا بٹیروالے لاک ڈاون کوختم کرکے مارکیٹوں اور بازاروں کو کھولنے کی اجازت دے کر ہماری حکومت نے اس وبا کو ملک بھر میں پھیلنے کا کھلا پرمٹ جاری کردیا جس کا خمیازہ اب پوری قوم درجنوں انسانی جانوں کے ضیاع کی صورت میں بھگت رہی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس وبا نے پہلے سے ملک کی لڑکھڑاتی معیشت کومزیدزمیں بوس کرکے رکھ دیاہے ۔ کوروناکے آنے سے پہلے معیشت کے ماہرین نے ملک کے موجودہ مالی سال کے جی ڈی پی میں تین فیصد اضافے کی نوید سنائی تھی لیکن وبا پھیلنے کی وجہ سے ملک جی ڈی پی صفر اعشاریہ چار فیصد تک سکڑ گئی ہے یعنی مجموعی نقصان تین اعشاری چھ فیصد یا پندرہ کھرب اسی ارب روپے تک پہنچ گیاہے۔ اگلے سال کیلئے اگرچہ پلاننگ کمیشن نے جی ڈی پی کی شرح نمو میں دواعشاریہ تین فیصد کا اندازہ لگایاہے لیکن اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ اور ایشیائی بینک اورعالمی بینک اس اندازے کو محض ایک خام خیالی تصور کرتے ہیں۔اسی طرح یہاں کی تعلیمی شرح پہلے سے بھی انتہائی قابل رحم تھی تاہم کورونا ئی آفت نے اس اہم شعبے کو مزید کئی سال پیچھے دھکیل دیا ۔ دوسری طرف ہماری ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ شہرشہر،محلہ محلہ اور گھر گھر تک پہنچنے کے باوجود ہم اس موذی مرض کے وجود کا سرے سے انکارکررہے ہیں۔گو کہ ہم بیک وقت دو کورونائی وباووں سے برسرپیکارہیں،ٹائپ اے کورونا اور ٹائپ بی کورونا۔ٹائپ اے کورونا تو اس معروف کورونا کانام ہے جو پچھلے سال دسمبرمیںچین کے صوبے ووہان سے برآمد ہواتھا جو اس وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکاہے۔چار لاکھ سے زیادہ اس سے انسانی ہلاکتیں ہوئیں ہیں جبکہ اسی لاکھ لاکھ سے زیادہ لوگوں میں اس کی تشخیص ہوئی ہے۔نہ صرف جانی نقصانات بلکہ اس وبا کی وجہ سے عالمی سطح پرتعلیمی اداروں، سیاحت، ریلوے ، ایئرلائنز،عام کاروبار اور سوشل معاملات ٹھپ ہونے کے ساتھ ساتھ پہلی بار مذہبی عبادت گاہوں کو بھی تالے پڑگئے ۔یعنی باقی دنیا کو صرف ٹائپ اے کورونا نے اپنی لپیٹ میںلیاہواہے جبکہ ہم ٹائپ اے کے ساتھ ساتھ ٹائپ بی کوروناکا مقابلہ بھی کررہے ہیں۔ ٹائپ بی کورونا چین امریکہ سے ہمارے ملک میں در نہیں آیاہے بلکہ یہ ہم لوگوں کی اندرونی پیداوار ہے ۔اس نوعیت کاکوروناہمارے اندر شک اور اشتباہ کی شکل میں موجودہے جس نے ہمیں ٹائپ اے کورونا(حقیقی کورونا)پر یقین کرنے سے باز رکھاہے۔ عام آدمی توکیا ، بہت سے بزرگ سیاستدان ، بیوروکریٹ اوردانشور حضرات یہاں تک کہ طبی ماہرین اس وباکوماننے سے منکر ہیں۔ آپ اگرٹائپ اے کورونا کے منکرین کے ساتھ اس بحث کو چھیڑ یں تو یہ لوگ اس حوالے سے آپ سامنے دلائل کے انبار لگادیں گے ۔ان منکرین کی پہلی دلیل یہ ہے کہ کورونا وائرس کا سرے سے وجودہی نہیں ہے بلکہ امریکا، چین ، اسرائیل ، برطانیہ اور مغربی ملکوں کے حواریوں کی ایک سازش ہے اوریہ ممالک اس آڑ میں اپنے مذموم مقاصد پوراکرناچاہتے ہیں۔ ان منکرین میں سے بعض کی دلیل یہ ہے کہ کورونا کے نام سے ایک نام نہاد وبا کاافواہ پھیلاکرکفری ممالک اصل میں خداسے ہمارا رابطہ منقطع کرنا چاہتے ہیں۔کچھ منکرین کادعویٰ ہے کہ وارآن ٹیرر کی طرح امریکہ ایک مرتبہ پھر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش کرنا چاہتاہے۔ جبکہ بعض نام نہاد دانشورمنکرین کاکہناہے کہ چونکہ دنیا کوگلوبل وارمنگ کا مسئلہ درپیش ہے یوں کورونا کاڈھونگ رچاکر طاقتورممالک انڈسٹریز کی بندش کے ذریعے اس حدت کو کم کررہے ہیں۔جمعیت علماء اسلام کے سابق رکن اسمبلی اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی جیسے بزرگ سیاستدان تک اس وبا کی تردید پرابھی تک مصرہیں۔اس مرض کو ڈرامہ کہتے ہوئے مولاناشیرانی صاحب کا ڈیڑھ مہینہ پہلے یہ دعویٰ تھاکہ کہیں بھی کورونا وائرس سے ہلاکتیں نہیں ہوئیں ہیں۔ ابھی دو دن پہلے انہوں نے ایک اور بیان جاری کیاکہ کورونا وائرس کے ذریعے امریکہ جیسے ممالک عالمی آبادی کوگھٹاناچاہتاہے، علیٰ ھٰذاالقیاس۔ مطلب یہاں نہ تو حکومتی سطح پر اس عالمگیر وبا کے سامنے بند باندھنے کی سنجیدہ کوششیں ہورہی ہیں اور نہ عوامی سطح پر اس پر یقین کیاجارہاہے ۔اے قومِ ِ غافل! خدارا ٹائپ اے کورونا کی وبا کو وبا سمجھئیے ،خود بھی احتیاط کریں اور دوسروں کو بھی اس ملک مرض سے بچنے کی تلقین کریں، پلیز مزید ٹائپ بی کورونا وائرس کو اپنے دل ودماغ سے نکال دیں۔