1989ء کے وہ دن مجھے یادہیں کہ جب یہ اعلان ہواتھاکہ افغانستان سے روسی فوجیوں کا انخلاء ہوچکاہے۔اس طرح دسمبر 1979ء میں شروع ہونے والی روسی جارحیت کا فروری 1989ء میں یعنی نوسال کے بعداس وقت کی سپرپاورسوویت یونین کی ذلت آمیزشکست کے ساتھ خاتمہ ہوا۔ سوویت یونین کی جارحیت کے خلاف افغان جہاد شروع ہواجس میںساری دنیا کے مجاہدین اس وقت کی سپرپاور سوویت یونین کے خلاف بر سر پیکار تھے۔دنیا کے بیشتر ممالک نے سوویت یونین کی افغانستان پر دھاوا بولنے کی مخالفت کی۔جبکہ34مسلم ممالک نے باقاعدہ ایک قرارداد پاس کی اور سوویت یونین کی ایک مسلمان ملک افغانستان پر یلغار کوللکارتے ہوئے اسے جلد از جلد افغانستان سے افواج واپس بلانے اورافغانستان خالی کرنے کوکہا۔ امریکا اور روس کے درمیان سرد جنگ کی وجہ سے امریکہ اس جنگ میں کھل کر نہیں کود سکا البتہ امریکی سی آئی اے نے کھل کرسوویت یونین کی جارحیت کے خلاف برسرپیکار مجاہدین کوجدیداسلحہ سے مسلح کیا اور ہر طرح سے انکی معاونت کی۔ امریکا،برطانیہ ، سعودی عرب اور دوسرے ممالک نے روس کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کو اربوں ڈالر کا سرمایہ فراہم کیا۔مجاہدین کے ہاتھوں سوویت یونین کی ذلت آمیزشکست تک مجاہدین کویہ بلاتعطل امداد جاری رہی ۔اللہ کے بھروسے اورپھردنیاکے عملی تعاون سے مجاہدین پورے نوبرس تک خم ٹھونک کرلڑے بالآخرسوویت یونین کوگھٹنے ٹیکنے پرمجبورکردیا۔یوں اس فتح کاسہراجہاں مجاہدین کے سرباندھاگیاوہیں مملکت پاکستان کے سر پربھی فتح کاتاج سج گیاکیونکہ وہ بالفعل جہادافغانستان میں شریک تھا۔ آج تاریخ اپنے آپ کودہرارہی ہے لیکن ایسے وقت میں کہ جب طالبان یک وتنہادنیاکے چالیس ممالک کے خلاف پورے 17برس تک بے سروسامان کے ساتھ برسرپیکارتھے ۔ نائن الیون کے بعد2001ء میںجب امریکانے افغانستان پردھاوابول دیاتوطالبان مجاہدین تنہاکردیئے گئے ۔دنیاکاکوئی بھی ملک حتیٰ کہ مسلم ممالک بھی امارت اسلامی افغانستان پرہوئی امریکی جارحیت کے خلاف طالبان کے حق میں بولا اور نہ ہی ان کاساتھ دیا۔علیٰ الرغم اسکے کہ ہرطرف طالبان کو دہشت گرد اور امریکہ اور نیٹو افواج کے خلاف ان کی کارروائیوں کو دہشت گردی کہہ کرطالبان کو مطعون کیا گیا۔ لیکن دنیاکے تمام ممالک جوامریکی چھترچھائے میں طالبان کوتبرابھیج رہے تھے کاکوئی اثرقبول کئے بغیرطالبان نے اپنے آپ کوحق وصداقت کی راہ پرگامزن سمجھتے ہوئے امریکہ اورنیٹوافواج کے خلاف صف بندی کردی اورجہادکے محاذپرڈٹ گئے اورگزشتہ سترہ برس تک لگاتارغیرملکی جارح افواج کے خلاف مسلح جدوجہدکرتے رہے ۔ افغانستان کے لق ودق اوربے آب وگیاہ پہاڑوں میں امریکی اورنیٹوافواج اپنے آپ کونہ صرف پھنسابیٹھے بلکہ ہزاروں امریکی اورنیٹوفوجی طالبان کانشانہ بنتے رہے اور ان کی لاشیں تابوتوں میں بھربھرکراپنے اپنے ممالک جاپہنچیں۔اس صورتحال نے بالآخرامریکہ کوسوچنے پرمجبورکردیاکہ کب تک وہ افغانستان کی بے مقصد جنگ میں ماراجاتارہے گا۔اس نے اس ذلت آمیزجنگ سے اپنے آپ کونکالنے کاعقلمندانہ فیصلہ لیااورپاکستان کے ذریعے جولائی 2018سے طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات شروع کردیئے ۔ان مذاکرات میں بڑے مدوجزرآتے رہے کبھی امریکہ طالبان کی لیڈرشپ کونشانہ بناتارہااورکبھی طالبان امریکی افواج کے چھکے چھڑاتے رہے ۔تاہم امریکہ اس سب کے باوجودافغانستان کی جنگ سے نجات چاہ رہاتھا۔ مذاکرات کے اسی تسلسل کے دوران گزشتہ سوموارسے قطرکے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اورطالبان کے مابین ہورہے تھے۔ ان مذاکرات کے چھ روز بعدہفتے کی شام کوفریقین ایک ایسے معاہدے پر پہنچ چکے ہیں جس کے تحت 17سال سے افغانستان پرقابض امریکی فوج بالآخر گھر لوٹ رہی ہے۔ اس معاہدے کے تحت غیر ملکی افواج ایک مقررہ مدت ’’اٹھارہ ماہ ‘‘کے اندر افغانستان سے نکل جائیں گی، افغان طالبان کو بلیک لسٹ سے ہٹا لیا جائے گا جس سے ان پر لگی سفری پابندیاں ختم ہو جائیں گی اور قیدیوں کا تبادلہ بھی ہو گا۔یہ مذاکرات دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر میں ہو رہے ہیں۔افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ دوحہ میں چھ دن کے بعد ہم نے اہم معاملات پر خاطر خواہ پیش رفت کی ہے اور مذاکرت میں خاطرخواہ پیشرفت ہوئی ہے ۔امریکی وفدکی طرف سے اِن مذاکرات کی سربراہی افغان نژاد زلمے خلیل زاد کر رہے ہیں جو امریکہ کی جانب سے افغان امور کے مشیرِ خاص ہیںجبکہ طالبان کی طرف سے طالبان کے سینئرکمانڈر ملا عبدالغنی برادر کررہے ہیں جو آٹھ سالہ قیدمیں رہنے کے بعد اکتوبر2018ء میں رہا کیے گئے۔خیال رہے کہ امریکہ اورطالبان کے مابین یہ مذاکرات جولائی 2018ء سے جاری ہیں اس میں تعطل آیا تاہم یہ ختم نہیں ہوئے۔ مذاکرات کی طوالت اس بات کی نشاندہی کر رہی تھی کہ کوئی بڑی پیشرفت ہو نے جارہی ہے۔جولائی 2018ء سے امریکہ اس کوشش میں رہاہے کہ وہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرے، جس کے لئے حکومت پاکستان ممددومعاون ثابت ہوئی ۔پاکستان کی کوششوں کے طفیل طالبان پچھلے کئی ماہ میں متعدد بار امریکی حکام سے ملے اور بات چیت بھی ہوئی ہے۔روس اورچین بھی اس پروسیس میں شریک رہے البتہ بھارت جوافغانستان کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کررہاتھاکوروسیاہی ہوئی اوراس کا ان مذاکرات میں کوئی عمل دخل نہ رہا۔ واضح رہے کہ طالبان روزاول سے اپنے اس موقف پرقائم تھے کہ امریکیوں سمیت تمام غیر ملکی جارح ا فواج سرزمین افغانستان سے انخلاء کریں اوراپنے اپنے ممالک واپس چلی جائیں۔فریقین کے مابین افغانستان میں امریکی افواج کے انخلا ء کے ٹائم ٹیبل پر اور ہتھیار بندی کے حوالے سے آخری بات چیت جاری ہے جوجلد اعلامیے کی شکل میں سامنے آجائے گا۔امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل نے بھی خبر دی تھی کہ افغانستان میں 14000 امریکی فوجیوں کے نکلنے کے بارے میں بات کی گئی جو کہ طالبان کا مرکزی مطالبہ ہے اور اس کے علاوہ انھوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ داعش کو افغانستان سے دور رکھیں گے۔ ایک ہفتہ قبل امریکہ کے ساتھ جاری مذاکرات کو درست سمت میں رکھنے اور اسے بہتر بنانے کے لئے افغان طالبان کی طرف سے تنظیم کے بانی رہنما ملا عبدالغنی برادر کو تنظیم کے امیر ملا ہیبت اللہ اخوانزاد کو خارجی امور کے لیے نائب منتخب کر لیا گیا اور قطر میں طالبان کے دفتر کی قیادت بھی انھیں سونپی گئی ۔افغان طالبان کے سابق امیر ملا عمر اور ملا برادر ایک ہی مدرسے میں درس دیتے تھے اور 1994ء میں قائم ہونے والی تنظیم طالبان کے بانی قائدین میں سے تھے۔ملا برادر طالبان دور میں ہرات صوبے کے گورنر اورطالبان آرمی کے چیف بھی رہ چکے ہیں۔ طالبان نے 1998ء میں جب افغان صوبے بامیان پر قبضہ کیا تو اس حملے کے وقت ملا برادر طالبان کے کمانڈر تھے۔ ملا محمد عمر نے جب افغانستان میں طالبان تحریک کا آغاز کیا تو ملا برادر ان چند افراد میں شامل تھے جنھوں نے بندوق اٹھا کر طالبان سربراہ کا ہر لحاظ سے ساتھ دیا اور تحریک کی کامیابی تک وہ ان کے ساتھ ساتھ رہے۔انہوں نے طالبان کے لئے جنگی ضابط اخلاق مرتب کرکے ایک بہت بڑاکام سرانجام دیا۔ گزشتہ چھ دنوں سے امریکی حکام کی ملا عبدالغنی برادر کے زیرسربراہی جاری ان مذاکرات کے دوران امریکہ اور طالبان نے ایک دوسرے کے قیدیوں کی رہائی پر بھی اتفاق کیاجبکہ طالبان کی طرف سے جوفہرست امریکہ کے حوالے کی گئی اس میں جن طالبان کمانڈرزکے ساتھ ملت کی بیٹی ڈاکٹرعافیہ صدیقی کانام بھی شامل ہے جن کی رہائی پرامریکہ کی طرف سے گرین سگنل مل چکا ہے ۔قطر میں ملاعبدالغنی برادرکی سربراہی میں طالبان کی طرف سے محمد عباس ستانکزئی، مولانا فاضل، مولانا خیراللہ خیرخواہ، شہاب الدین دلاور، قاری دین محمد اور عبدالسلام حنفی شریک ہیں۔ ان مذاکرات میں افغانستان سے بیرونی قابض افواج کا انخلائ، جنگ بندی، طالبان رہنمائوں کے نام بلیک لسٹ سے نکالنا، قیدیوں کا تبادلہ اور اعتماد کی بحالی پر زیادہ بحث ہوئی۔ واضح رہے امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر میں ہونے والے مذاکرات کے دوران طالبان مجاہدین نے اپنی کارروائیوں میںتیزی لائی۔مذاکرات کے پہلے ہی دن دارالحکومت کابل کے قریب میدان وردگ کے صدرمقام میدان شار میں افغان انٹیلی جنس ایجنسی کی ایک چھائونی پر ہونے والے طالبان حملے میں سو سے زیادہ اہلکارہلاک ہوئے۔21جنوری پیر کو ہونے والے اس حملے کو افغان انٹیلی جنس ایجنسی’’این ڈی ایس‘‘ پر اب تک ہونے والے حملوں میں سب سے بڑا حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔طالبان کی جانب سے یہ حملہ قطر میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے اجلاس سے چند ہی گھنٹے بعد ہوا، جس میں پہلے حملہ آور نے بارود سے بڑی گاڑی انٹیلی جنس بیس سے ٹکرائی ۔ ایسے حملوں کا مقصد یہ ہے کہ طالبان امریکہ کو یہ دکھاناچاہتے ہیں کہ وہ کتنے طاقتور ہیں۔