ایک سنہری اور زندگی سے بھر پور شام فیصل آباد کے نصرت فتح علی خاں آڈیٹوریم میں محترمہ صوفیہ بیدار نے ہمارے اعزاز میں رکھی تھی۔ تیمور اور حسن بانو کے ساتھ ہم موٹر وے سے گپ شپ کرتے اور سرسوں کے سونے جیسے کھیت دیکھ کر سرشار ہوتے رہے۔ دونوں اطراف میں لینڈ سکیپ کے دوڑتے منظر کتنے اچھے لگتے ہیں۔ پنجاب کی دھرتی کتنی زرخیز ہے اوپر سے دسمبر کی دھوپ کیوں نہ پہلے آپ کو ایوب کموکا کے دو شہر پڑھا دیے جائیں کہ پنجابی زبان کی مہک آپ کو مشکبار کر دے: کیہہ یارا ساڈا جیوناں اسیں کچی برف دے بھور سانوں چھمکاں سورج مار دا سانوں کر دی رات ٹکور میں یار پرانی بوسکی مری بھگتی ہک ہک تند اس تکیا جدوں سنوار کے میں ہو گئی نویں نکور میرے پیارے قارئین!ایوب کموکا اور دوسرے نوجوان شعرا میری محبت میں چلے آئے اور اب میری محبت یہ ہے کہ میں ان کے بہترین اشعار بھی آپ کو پڑھائوں ۔ فیصل آباد کی زمین بہت زرخیز ہے کسی نے کہا کہ یہ نصرت فتح علی خاں کا شہر ہے تو سُر میں تو ہو گا۔ خاں صاحب کے نام کے ساتھ کتنی یادیں چلی آئیں۔ کبھی تفصیل سے لکھوں گا۔ انہوں نے شکوہ جواب شکوہ گایا تو میں نے تلفظ کی درستگی بتائی تو سینے سے لگا کر بہت خوش ہوئے‘ سٹوڈیو میں مدعو کیا اس سے بھی پہلے اپنے گھر میں مجھے ساتھ بٹھا کر میری غزل کمپوز کی: وہ مجھ کو چھوڑ گیا تو مجھے یقین آیا کوئی بھی شخص ضروری نہیں کسی کے لئے ہم چار بجے کے قریب فیصل آباد آرٹس کونسل پہنچے ڈائریکٹر آرٹس کونسل محترمہ صوفیہ بیدار نے بہت خلوص اور محبت سے ویلکم کہا۔ ہمارے ساتھ صوفیہ بیدار اور کئی حوالوں سے ایک تعلق بنتا ہے۔ منیر نیازی کے ہم بہت قریب تھے۔ کبھی کسی ادبی بحث میں جھگڑ پڑتے تو منیر نیازی صلح کروا دیتے۔ محترمہ کا علمی اور ادبی خانوادہ سے تعلق ہے۔ تحریر ہو کہ تقریر ان کے ہاں تخلیقی اسلوب غالب ہوتا ہے۔ پروگرام سے پہلے ان کے آفس ہی میں دوست آنا شروع ہو گئے خاص طور پر انجم سلیمی انتظامات دیکھ رہا تھا۔ انجم فیصل آباد کی شاعری کا جھومر ہے: عمر بھر کی تھکن لاد کے گھر جاتا ہوں رات بستر پہ میں سوتا نہیں مر جاتا ہوں مزے مزے کی گپ شپ کے بعد ہم نصرت فتح علی خاں ایڈیٹوریم میں چلے آئے جہاں میرے اعزاز میں شام تھی اور ایک عدد مشاعرہ۔ ویسے تو ہوتے ہوتے یہ شام رات میں ڈھل چکی تھی۔ ہال بھر گیا تو لوگ کھڑے ہو کر شاعری سنتے رہے میں پہلے بھی دو تین مرتبہ یہاں آ چکا ہوں۔ یہاں بھی لاہوریوں کی سی زندہ دلی ہے۔ اکثر لوگ تو مہمان کو زیادہ سے زیادہ سننا چاہتے تھے اور کچھ نوجوان شعرا زیادہ سے زیادہ سنا دینا چاہتے تھے جب مشاعرے کا رنگ جمتا ہے تو داد بے داد سب برابر ہو جاتی ہے۔ اچھے شعر بھی تھے جو دلوں کو چھو گئے۔ مثلاً ایک نوجوان شاہد کنول نے شعر پڑھا: ہو سکدا اے شاید کوڑا ہی مک جاوے تنبیاں نال پتاشے جوڑ کے بیٹھاواں پنجابی شاعری کا اپنا ایک مزاج ہے شاید یہ ہمارے دل کے زیادہ قریب ہے۔ بشریٰ ناز نے بہت داد سمیٹی ایک شعر تو میں نے اس سے دوبارہ سنا: اچن چیت نہ آیا کر بندہ مر وی سکدا اے گلفام نقوی نے بھی پنجابی شاعری سنائی اور داد سمیٹی۔چلتے چلتے یہ بھی بتاتا چلوں کہ میرے کلام کو سازو آواز کے ساتھ آرٹس کونسل کے میوزک کے استاد عابد غنی نے پیش کیا اور فن کی جادوگری دکھائی: لفظ ٹوٹے لب اظہار تک آتے آتے مر گئے ہم ترے معیار تک آتے آتے ایک لمحے کی مسافت ہی بہت ہوتی ہے ہم کو تو عمر لگی یار تک آتے آتے الطاف بابر کی کمپیئرنگ تھی یہ بھی کمال شخص ہے کہ وہ انجم سلیمی کے ساتھ مل کر وہاں فیصل آباد ٹی ہائوس چلا رہے ہیں۔ کچھ نوجوانوں کے اشعار: ہمارے پرکھوں نے ہم سے بہتر گزار لی ہے میں سوچتا ہوں ہمارے بچوں کا کیا بنے گا (جہاں زیب ساحر) اک دن راجن پور بھی لے کر جائوں گا لیکن پہلے رشتہ پکا کرتے ہیں عاطف شہیر وہ جسکی بیٹی کے سر کی چادر بہت جگہ سے پھٹی ہوئی ہے تم اسکے گائوں میں جا کے دیکھو تو آدھی فصلیں کپاس کی ہیں دانش نقوی ایک سورج ہے کہ جاتے ہوئے یوں تکتا ہے جیسے مزدور کو اجرت کی طلب ہوتی ہے فاروق بھٹی نکی دھی اج ہتھ میرے چمّے تے چھالیاں دا مل پے گیا منور شکیل دشمنوں کو مجھ تلک آنے میں دشواری نہ ہو آسماں تک راستہ ہموار کرتی ہوں میاں صوفیہ بیدار نے بھی خوب داد سمیٹی: اک درد کبھی آنکھ سے دھویا نہیں جاتا جب رنج زیادہ ہو تو رویا نہیں جاتا سلگی ہیں مری آنکھ کی اک عمر سے نیندیں آنگن میں لگے آگ تو سویا نہیں جاتا دو اشعار صاحب صدارت جناب نصرت صدیقی کے: حیات درد میں تحلیل ہو گئی کتنی تمہارے حکم کی تعمیل ہو گئی کتنی کہیں سے دیدہ ور و وسعت نظر لائو جمال شعر کی تذلیل ہو گئی کتنی اہلیان فیصل آباد کی محبتوں کا میں شکر گزار ہوں۔ وہ دیر تک مجھے فرمائشیں کر کے ہنستے رہے صرف دو شعر: اپنا مسکن مری آنکھوں میں بنانے والے خواب ہو جاتے ہیں اس شہر میں آنے والے شکریہ تیرا کہ تو نے ہمیں زندہ رکھا ہم کو محرومی کا احساس دلانے والے