بات کردار کی ہے۔ شرافت اور نجابت کی ہے۔ یہ روشنی لہو میں رچی بسی ہو تو کردار ایسے ہی راستوں کے شجر بن جاتے ہیں یا پھر گھپ اندھیرے میں، ایک دیے کی طرح جگمگانے لگتے ہیں۔ واقعہ پرانا ہے مگر آج بھی یادوں میں لو دیتا ہے۔ لاہور سے خان پور تک کا ٹرین کا سفر تھا۔ لوئر اے سی کمپارٹمنٹ میں بکنگ تھی۔ ایک بھلی سی مسافر خاتون پہلے سے وہاں بیٹھی ہوئی تھیں انہیں رحیم یار خان جانا تھا۔ ان کی عمر اور شفقت بھرے سراپے کے اثر میں، میں نے انہیں آنٹی کہہ کر مخاطب کیا اور گفتگو کا سلسلہ چل نکلا۔ اس سفر میں میں اپنے پیارے والد کے ہمراہ تھی۔ آج جب اے ایس آئی محمد بخش کی شرافت و نجابت اور کردار کی بلندی ہمیں حیرت آمیز مسرت سے ہمکنار کرتی ہے تو مجھے اس رات ٹرین کے سفر میں سنایا ہوا وہ واقعہ پھر سے یاد آتا ہے۔ دیکھیے کہ کیسے کیسے اعلیٰ کردار ابھی اس خرابے میں موجود ہیں۔یہ واقعہ انہی خاتون کی زبانی سنیے۔ نوے کی دہائی کا آغاز تھا۔ میں کسی ضروری کام سے رحیم یار خان سے لاہور ٹرین کے سفر سے روانہ ہوئی، میری بکنگ اے سی سلیپر میں تھی۔ میں کسی مجبوری کے تخت پہلی بار اتنا لمبا سفر اکیلے سفر کر رہی تھی۔ اسٹیشن تاخیر سے پہنچنے کی وجہ سے جلدی جلدی مطلوبہ بوگی کے اے سی کمپارٹمنٹ میں پہنچی۔ دیکھا تو ایک شخص پہلے سے کیبن میں موجود تھا۔ رات بھر کا سفر مجھے اکیلے کرنا تھا، سو میں کچھ گھبرا گئی اور سامنے بیٹھے ہوئے مسافر سے درخواست کی کہ اگرچہ یہ اے سی کیبن ہے مگر میں اکیلے سفر کر رہی ہوں تو آپ اس کیبن کا دروازہ کھلا رکھیں، ورنہ مجھے بہت معیوب لگے گا۔ مسافر نے یہ بات سنی تو غالباً کسی کام سے اٹھ کر کمپارٹمنٹ سے باہر چلا گیا اور دروازہ کھلا چھوڑ دیا۔ ٹرین کی چھک چھک میں رات گزرتی رہی۔ شاید میری آنکھ بھی لگ گئی۔ اٹھ کر دیکھا تو سامنے والی سیٹ خالی تھی۔ اب صبح ہو رہی تھی ٹرین لاہور کے پر رونق سٹیشن پر پہنچنے والی تھی۔ مگر وہ مسافر دروازہ کھلا چھوڑ کر گیا اور پلٹ کر واپس کیبن میں نہیں آیا۔ صرف میری ایک بات کا اس نے اس قدر احترام کیا کہ مجھے ایک اجنبی شخص کی موجودگی میں اکیلے سفر کرنا معیوب لگ رہا تھا۔ میانوالی قریشاں کے با اثر سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والا مخدوم الطاف تھے جو اس وقت محترمہ بے نظیر کی کابینہ میں وزیر تھے۔ خاتون کہتی ہیں کہ سال ہا سال گزر گئے یہ اس مسافر کی شرافت اور کردار نے جو نقش میرے ذہن پر چھوڑا وہ آج بھی ویسا ہی ہے۔ میں آج بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتی ہوں‘‘ اے ایس آئی محمد بخش کے کردار نے جو نقش ہمارے ذہنوں پر چھوڑا ہے، قوم اسے بھی کبھی نہیں بھلا پائے گی۔ کشمور واقعہ انسانی کردار کی عظمت اور انسانی کردار کی غلیظ ترین پستی۔ دونوں تصویروں کو ہمارے سامنے بیک وقت پیش کرتا ہے۔ انگریزی میں اس صورت حال کے لیے ایک لفظ استعمال کیا جاتا ہےJuxtaPosition۔ یعنی ایک دوسرے سے بالکل الٹ، برعکس عناصر کو ایک دوسرے کے ساتھ رکھ دیا جائے۔ ایک طرف نوکری کا جھانسہ دے کر ایک غریب ماں اور اس کی پانچ سالہ بیٹی کو بدترین زیادتی اور بربریت کا نشانہ بنانے والے بظاہر انسانی شکلوں میں شیطان کا روپ ہیں۔ ایسی شیطانی کردار تو جا بجا، بکھرے پڑے ہیں، ہم ہر روز ان پر نوحے لکھتے ہیں۔ مذمتی کالم لکھتے ہیں، احتجاجی پوسٹیں کرتے ہیں اور معاشرے میں روز بروز بڑھتی ہوئی اخلاقی گراوٹ اور شیطانیت کا ماتم کرتے ہیں لیکن یہ اے ایس آئی محمد بخش جیسے اجلے کردار۔ راستوں میں شجر بننے والے لوگ تو کم کم ہی نہیں نایاب بھی ہیں۔ سو جب، عظمتِ کردار کا ایسا پھول، ناامیدی کے بے آب و گیاہ صحرا میں کھلتا ہے تو پورا سماج اسے سلام کرنے کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے۔ خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہہ اٹھتا ہے، یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی! بے مثال فرض شناسی، تہذیب نفس اور دیانت کردار کی بہ مثال جب پولیس کے ایک ملازم کی طرف سے سامنے آئی ہے تو حیرت اور بڑھ جاتی ہے۔ ایک اجنبی مظلوم خاتون کو دس روز اپنے گھر ٹھہرانا، پھر اس یرغمال بنائی گئی مظلوم بچی کو ظالموں کے قبضے سے چھڑوانے کے لیے اپنی بیٹی کو ٹریپ کے اس ڈرامے میں استعمال کرنا بڑا دل گردے کا کام تھا۔ سندھ پولیس نے بجاطور پر اس کو شاندار خراج تحسین پیش کیا۔ اے ایس آئی محمد بخش اپنی بیٹی، بیوی اور بیٹے کے ہمراہ بگھی میں سندھ پولیس لائنز لایا گیا تو اسے زبردست گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ جب اسے بات کرتے ہوئے، زیادتی کا شکار معصوم بچی کا تذکرہ کیا تو وہ بے اختیار آب دیدہ ہو گیا۔ یقین کریں اس کی سادہ اور سچی گفتگو اور سچے آنسوئوں نے مجھے بھی آب دیدہ کر دیا۔ محمد بخش اے ایس آئی جیسا کردار، فرض شناسی، انسانیت اور تہذیب نفس سے یہ معاشرہ تہی ہوتا جا رہا ہے۔ ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں اے ایس آئی محمد بخش جیسے لوگ چاہئیں۔ ہمیں ایسے سیاستدان چاہئیں۔ ہمیں ایسے بیورو کریٹ چاہئیں، ہمیں ایسے تاجر چاہئیں، ہمیں ایسے دکاندار چاہئیں، ہمیں ایسے استاد اور ایسے طالب علم چاہئیں مجھے لاکھوں کروڑوں گر زبان و دل میسر ہوں جہاں میں بانٹ دوں ہر اک کو دل اپنا ،زبان اپنی فرض شناسی اور انسانیت کے جذبے سے مہکتا ہوا یہ پھول ہمیں سندھ کے صحرا میں کھلا، جہاں سے زیادہ تر کرپشن ہوسِ زر، مفاد پرستی اور قومی خزانے جیسی امانت میں خیانت کی غضب کہانیاں منظر عام پر آتی ہیں۔ لیکن کبھی جب ہم انسان سے مایوس ہونے لگتے ہیں تو اے ایس آئی محمد بخش جیسے روشن کردار سامنے کر آ کر ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ ابھی انسانیت زندہ ہے۔ بات کردار کی ہے۔ شرافت اور انسانیت کی ہے ،یہ روشنی لہو میں رچی بسی ہو تو کردار ایسے ہی راستوں کے شجر بن جاتے ہیں!! فرض شناسی کا استعارہ اور انسانیت کی مثال۔ اے ایس آئی محمد بخش اور اس کے خاندان کو قوم کا سلام ہے!