اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلمان اس وقت تاریخ کے مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔دنیا کے دوسری قوموں کی طرح سائنسی ایجادات اور تعلیم کے شعبے میں مہارت تو کُجا ،یہ قوم آج امن کیلئے بھی ترس رہی ہے۔جنوبی ایشیاء میں اگر افغان خطہ پچھلے چار دہائیوں سے مسلسل شورش اور بدامنی کی لپیٹ میں ہے تو یہ غیروں کے ساتھ اپنوں کا بھی عمل دخل ہے۔ اسی طرح آج اگر مشرق وسطیٰ کا علاقہ میدان جنگ بن چکاہے تو وہاں پر بھی مسلمان ایک دوسرے کو نیچادکھانے میں مصروف ہیں ۔ جس افغانستان کو اقبال نے ایشیاء کا دل کہاتھا اور پیش گوئی کی تھی کہ ایشیاء کے امن کیلئے افغانستان میں امن ناگزیرہے ، ان کی وہی پیش گوئی آج حرف بہ حرف سچ ثابت ہورہی ہے ۔ بلاشبہ، افغان خطے میں مسلسل بدامنی ، قتل وغارت اور لاقانونیت کے پیچھے عالمی قوتوں کی ریشہ دوانیوں سے انکار نہیں کیا جاسکتالیکن اس بدامنی کا بیج بھی یہاں کے نااہل حکمرانوںنے بویاتھا ۔ کسی نے سوویت یونین کو مداخلت کا موقع دیا تو کسی نے امریکہ کے کہنے پر اس کو بھگانے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ روسی افواج کے انخلا کے بعد کسی کا منظور نظر ایک مسلح گروہ ٹھہرا تو کسی کا دوسرا عسکریت پسند ٹولہ ۔ کسی کے کہنے پر طالبان وجود میں آئے اور کسی کی رضامندی اور تعاون سے شمالی اتحادجیسے مسلح بلاک بنے۔یہ دونوں آپس میں خوب لڑے اور ایک دوسرے کی ایسی گردن زنی کی گئی کہ ظلم اور بربریت کی ایک نئی تاریخ رقم ہوگئی۔ بعد میںاگرچہ طالبان جیسے پراکسیزکو تخت کابل حاصل کرنے میں کامیابی ملی لیکن یہ بھی چند سالوں کی مہمان حکومت تھی۔کیونکہ امریکہ نے 2001ء میںنائن الیون کا ڈرامہ رچاکر اس کا ملبہ انہی طالبان کے سرتھوپ دیا جو ایک وقت میں ان کے منظور نظر تھے ۔ اور وہی ہوا جس کا خدشہ ظاہر کیا جارہاتھا ،یو ں پہلے اس مہمان حکومت کو راتوں رات ساقط کرکے اسے دہشتگرد ڈکلیئر کردیا اور پھر اس خطے کی تھانیداری خود امریکہ نے سنبھالی۔اس خطے کی تھانیداری سنبھالنے کے جواز کیلئے شوشہ یہ چھوڑا گیا کہ یہاں امن ناپید ہے اور دہشتگردی پنپ رہی ہے۔ اور علاج یہ تجویزکیا گیا کہ امریکہ ہی وہ واحدطاقت ہے جو اس خطے میں امن بھی لاسکتا ہے اور دہشتگردوں کی پناہ گاہیں بھی ختم کرسکتا ہے۔ نائن الیون واقعے کو آج سترہ سال بیت گئے ہیںلیکن افغان خطے میں امن لانا درکنار بلکہ الٹا وہاں پر ماضی سے کہیں زیادہ بدامنی اور لاقانونیت کو فروغ ملا ہے ۔عیار امریکہ تو بظاہر افغانستان میں امن وامان قائم کرنے کا راگ الاپ رہاتھا اور حال یہ ہے کہ یہاں پر خیبر پختونخوااور قبائلی علاقوں کو بھی ایک اور افغانستان میں تبدیل کروایا۔ بظاہر دہشتگردوں سے نمٹنا اس کا غایہ اور نعرہ تھا لیکن ساتھ ساتھ داعش جیسی خوانخوار تنظیم کے جنگجووں کوبھی خطے میں لانے کی راہیں ہموار کیں۔ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی غلط تعبیر کرنے والوں کی حماقتوں کی وجہ سے خطہ آج تک جہنم بناہواہے ۔مرنے والے بھی مسلمان اور مارنے والے بھی ایک قرآن اور ایک رسولؐ کے ماننے والے ہیں۔ گھر بھی مسلمانوں کے مسمار ہورہے ہیں اور مسجدیں اور مزارات بھی مسلمانوں کے ۔ ادھر افغان طالبان کے غیر لچکدار رویے سے اس خطے میں امریکہ کی ریشہ دوانیوں کو مزید مہلت مل رہی ہے ۔بے شک ،طالبان کا امریکی افواج کے انخلا کا مطالبہ ایک جائز مطالبہ ہے لیکن بیرونی افواج کا انخلا تو تب زیادہ آسان ہوگاجب اس سرزمیں کے یہ دونوں سٹیک ہولڈرز (افغان حکومت اور طالبان )ایک پیج پر آ جائیں۔ افغان سرزمیں کی تزویراتی اور مالی مفادات کو کیش کرنے والی غاصب افواج کی رخصتی تو اس وقت ممکن ہوگی جب اس شورش زدہ گھر کے باسی بیک آواز اس کو الوداع کہہ دیں۔کیایہ کم خوش قسمتی ہوگی کہ حزب اسلامی کے امیر گلبدین حکمت یار کی طرح افغان طالبان بھی افغان سے مفاہمت کا راستہ اختیار کرکے ان خونریزیوںکاباب بندکردے ۔ خطے کی مستقل تھانیداری کاخواب دیکھنے والا امریکہ تو اس جنگ کو طول دینا چاہتا ہے جس میں جانی نقصان صرف مسلمان افغانوں کاہورہاہے۔دوسری طرف مشرق وسطیٰ کا منظر نامہ بھی آگ وخون اور مسلمانوں کی باہمی خونریزی سے عبارت ہے ۔ اے خاصہ خاصان رسل وقت ِ دعا ہے امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے جس قوم میں اور دین میں ہو علم نہ دولت اس قوم کی اور دین کی پانی پہ بنا ہے وہ قوم کہ آفاق میں جو سر بہ فلک تھی وہ یاد میں اسلاف کی اب رو بہ قضا ہے (حالی )