فلسطینیوں کی نسل کشی جاری،معصوم بچوں کا قتل عام نہ رک سکا ۔ایک ایک دن میں کئی کئی خاندان اجڑ گئے۔7 اکتوبر سے پہلے فلسطین کا مسئلہ سرد خانے کی نذر ہو چکا تھا ۔کئی اسلامی ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے تھے اور کچھ سوچ و بچار میں تھے مگر حماس نے سب کی سوچوں کو نہ صرف منجمند کر دیا بلکہ اسرائیل پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ آج کے دن اسرائیل اپنے وجود کی سلامتی کے درپے ہے ۔گزشتہ رات سوشل میڈیا پراسرائیلی فوجیوں کے خاندانوں کی چیخ و پکار دیکھ کر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ حماس نے اسرائیل کو 1949ء سے لیکر اس وقت تک سب سے بڑا مالی اور جانی نقصان پہنچایا ہے ۔اس وقت تک 21ہزار کے قریب فلسطینی جام شہادت نوش کر چکے ہیں ۔مسلمان کی تو آرزو ہوتی ہے کہ اسے شہادت کی موت نصیب ہو۔حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبینﷺ نے بھی اللہ سے شہادت کی دعا فرمائی ۔فرمایا :اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میری تو آرزو ہے کہ میں اللہ کے راستے میں قتل کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر قتل کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر قتل کر دیا جاؤں۔ بقول شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ : شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن نہ مالِ غنیمت نہ کِشور کشائی غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری 84 ویں روز بھی جاری ہے۔شہریوں کو گھر بار منہدم ہونے کے افسوس کے ساتھ اپنے پیاروں کو بھی کھونے کا دکھ ہے ۔غزہ میں ایک خوف ناک منظر ہے۔چار سو کھنڈرات ہی کھنڈرات ۔وحشت رقص کرتی نظر آتی ہے ۔ ہر طرف بکھرے سفید کفن ان شہریوں کی موت کی علامت بن چکے ہیں۔نیتن یاہو کے خلاف اسرائیل کے اندر سے نفرت ابھر رہی ہے ۔نیتن یاہوتاریخ کے اندھیروں میں غرق ہونے کو ہے لیکن اس کا عہد انسانیت کا نوحہ بن کر برسوں تلک وقت کے ایوانوں میں گونجتا رہے گا۔ شاید نیتن یاہو کے کمرے کی دیواروں پرغزہ کی ہنستی مسکراتی تصویر کے ساتھ کھنڈرات میں تبدیل تصویر بھی چسپاں ہو ۔ جنہیں دیکھ دیکھ کر وہ اپنی تنہائیاں بہلاتا ہو۔اگر اس میں انسانیت کی ادنیٰ سی رمق بھی موجود ہوئی تو کبھی کبھی یخ بستہ راتوں کی گہری نیند میں اس کی آنکھ ضرور کھل جایا کرے گی اور پھر وہ دیر تک پہلو بدلتا رہے گا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ لاکھوں انسانوں کو بے دردی سے قتل کردینے والا شخص،کسی رات میٹھی نیند سوکراس کربناک اذیت سے محفوظ رہے جو آدم خوروں کو معاف نہیں کیا کرتی۔ عالم اسلام کے لکھاری ابھی تو فلوجہ، بغداد، حدیثہ، ابو غریب، قندھار، تورابورا، قلعہ جنگی، قندوز اور دشت لیلیٰ کے مظلوموں کا نوحہ لکھ کرسستا ہی رہے تھے کہ ایک اور قیامت کا سامنا ہو گیا۔منیز نیازیؔ نے کہا تھا : اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔمجھ کو میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا غزہ کی تپش آہستہ آہستہ وائٹ ہائوس کے قریب پہنچ چکی ہے ۔ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی ، جاپان اورواشنگٹن میں سر جوڑے بیٹھے ہیں کہ اس سیل بلا کے سامنے کیسے بند باندھا جائے۔ مگر اب حماس بضد ہے ۔ گرتی دیوار کو ایک دھکا اور دو کے مترادف ۔اگر چند دن حماس نے اسی جذبے کے ساتھ جنگ لڑی تو اسرائیلی افواج میں بغاوت پیداہو نے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا ۔ بپھری ہوئی موجیں بے قابو ہو رہی ہیں۔ اسرائیلی معیشت کب تک امریکہ کے سہارے کھڑی رہے گی ۔امریکی دیوالیہ پن کی گرتی دیواروں کو سہارا نہیں مل رہا۔ اسرائیل کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے حملے کے بعد سے ملکی سکیورٹی فورسز کے تقریباً 3,000 ارکان زخمی ہو چکے ہیں۔لگ بھگ 1,200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے ۔ ان زخمیوں کی صحت کے لیے بھی سالانہ بنیادوں پراربوں ڈالر چاہیں ۔اسرائیل اپنے آپ کو ناقابل تسخیر قرار دیتا تھا۔وہ پوری دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا تھا ۔اپنے آپ کو ناقابل تسخیر سمجھنے والی، خودپرست اور بدمست قومیں اور تہذیبیں اسی طرح آپ اپنے خنجر سے خودکشی کیا کرتی ہیں۔ گرانڈیل ہاتھی کی طرح وہ خود اپنے ہی وزن سے گرتی ہیں اور پھر اٹھ نہیں سکتیں۔ جس طرح امریکہ نے افغانیوں کے پائوں پڑ کر ان سے مذاکرات کی بھیک مانگی تھی ۔اسی طرح وہ وقت بھی آنے والا ہے، جب نیتن یاہو ،اسماعیل ہانیہ کو اپنے پہلو میں، اپنے ہم پلہ بٹھا کر ان سے مذاکرات کا آرزو کرے گا ۔ غزہ کی پٹی میں خوراک، پانی اور ادویات کی شدید قلت کے برعکس سفید کفن بکثرت نظر آ رہے ہیں۔ یہ ایسے کفن ہیں جن پر محبت کے الفاظ نہیں لکھے بلکہ جنگ کی افراتفری میں مرنے والوں کے نام معلوم کرکے لکھنے کی فرصت بھی نہیں مل رہی۔ سفید کفنوں میں لپٹی ہوئی لاشوں کی شناخت بھی معلوم نہیں ہو رہی۔ اسرائیلی وحشیانہ بمباری میں شہید ہونے والے ایک بچے کے دل شکستہ باپ کی ویڈیو نے پتھر دلوں کو بھی رلا دیا۔ والد فلسطینی زبان میں اپنے بیٹے کو پکارتے ہوئے کہتے ہیں کہ’ ’میرے پیارے بیٹے! یہ میں تمہارے لیے لایا تھا، یہ اپنے ساتھ جنت میں لے جانا۔‘‘باپ روتے ہوئے اپنے بیٹے کے ہاتھ اور بسکٹ کو کفن کے نیچے رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’میں اسے یہاں رکھ لیتا ہوں، اسے اپنے پاس رکھو۔‘‘یقیناًیہ ایک مشکل لمحہ ہے ۔ ہر ایک فلسطینی اپنی موت کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔یا درکھیں!فتح و شکست کا انحصار اسلحہ خانوں اور تجوریوں پر نہیں، مقصد کی سچائی اور ایمان و یقین پر ہوتا ہے۔ ہر بے مقصد اور بے چہرہ مہم جوئی اسی طرح بے آبرو اور ہر مبنی برحق مزاحمت اسی طرح سرخرو ٹھہرتی ہے۔