پاکستان سے باہر اقبالؔ کو جانتا کون ہے؟ معلوم نہیں شان نزول سادگی ہے یا کم علمی لیکن یہ ایک ایسا بیانیہ ہے جس کا علم اور دلیل کی دنیا میں کوئی اعتبار نہیں۔ ایسا کوئی دعویٰ دو ہی صورتوں میں کیا جا سکتا ہے۔ اول: علم کا فقدان۔ دوم: دیانت کا۔ تیسری کوئی صورت نہیں ہے۔ ارشاد مبارکہ پڑھا تو جگن ناتھ آزاد یاد آئے۔ اپنے مضمون '' اقبالؔ مغربی خاور شناسوں کی نظر میں '' وہ لکھتے ہیں: '' یوں تو اقبالؔ کے فکرو فن نے ایک بڑی تعداد میں مستشرقین کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے جن میں انگلستان سے آرتر آربری، ٹامس آرنلڈ، آر اے نکلسن، سوتیل، وہائیٹ ہائیڈ، میکٹگرٹ، ایچ آر اے گب، گرہم بیلی، ای جی براؤن، کانٹ ویل اسمتھ، وکٹر کرنین، جی سی روم، ایڈ ورڈ ٹامس، رش بروک ولیمز، الفریڈ گیلام، اومالے، جی ای گرنے بام، رچرڈ سائمنڈ س، جے اے ہے وڈ اور رابرٹ وھٹ مور،جرمنی سے این میری شیمل، حییٹ السار بش بنیٹڈر، جے ڈبلیو فوک، برنڈ مینویل اور پروفیسر ہیل ، فرناس سے لیوی کلاؤ میترے، ہینزی ماسے، اور ایوا میووچ، اٹلی سے آرتھر جیفری ایساندر بسانی، اور ایم نالینو، چیکو سلواکیہ سے یان ماریک، روس سے بابا جان غفوروف، مس ایم ٹی اسٹپینیئس، گورڈن پلونوسکایا، این آئی پری گارینا، اور این ہی ایکنی لیسو، اور امریکہ سے مسز لنڈا ملک، فری لینڈ ایبٹ، شیلا میک ڈونو، اور مارگن کینتھ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس تعارف کے بعد جگن ناتھ اقبالؔ پر ان میں سے بعض لوگوں کے کام کا اجمالی بیان کرتے ہیں تاہم وہ اتنا طویل ہے کالم کی تنگنائے میں سمیٹنا ممکن نہیں۔ اقبالؔ کو ملک سے باہر کون جانتا ہے کے جواب میںجگن ناتھ آزاد کا یہ پیراگراف کافی ہے۔ اس ضمن میں اقبالیات کے ماہر جناب اعجاز الحق اعجاز صاحب نے بہت قابل قدر کام کیا ہے اور انہوں نے فیس بک پر ان چند اہم کتابوں اور مقالہ جات کا ذکر کر دیا ہے جو دنیا بھر میں اقبالؔ پر لکھے گئے۔ یہاں میں ڈاکٹر صاحب کے اس کام کا ایک مختصر سا خلاصہ پیش کر دیتا ہوں۔ تفصیل اور تصاویر ان کی وال پر موجود ہیں۔ دیکھی جا سکتی ہیں تا کہ معلوم ہو کہ دنیا میں اقبالؔ کو کون کون جانتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے مطابق : سید ابوالحسن علی ندوی کی علامہ اقبال پہ عربی کتاب روائع اقبال کا ترکی زبان میں ترجمہ جو ترک علی علوی کوروشو نے کیا ہے۔ترک صلاح الدین یاشار کی علامہ اقبال پہ کتاب ہے جس کا نام محمد اقبال ہے۔ضرب کلیم کا ترکی ترجمہ ڈاکٹر علی نہاد تارلان نے کیا ہے، ڈاکٹر علی نہاد تارلان کا پیام مشرق اور زبور عجم کے انتخاب کا ترکی زبان میں ترجمہ کیا دونوں شائع ہو چکے ہیں۔ ترک ڈاکٹر عیسی چیلق کی علامہ اقبال پہ کتاب محمد اقبال تصوفی دسونسیسی کے عنوان سے استنبول سے شائع ہو چکی ہے ۔عرب محقق ڈاکٹر عائض القرنی نے عرب شاعری کی تاریخ کے بڑے شعرا کی شاعری پہ مشتمل اپنی اس کتاب دیوان العرب میں علامہ اقبال کے شکوہ جواب شکوہ کے عربی تراجم کے منتخب حصوں کو بھی شامل کیا ہے یہ کتاب ریاض سے شائع ہوئی ہے۔اقبال کلیات کے عنوان سے اقبالؔ کے سارے کلام کا ترکی میں ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔ ترک سکالر احمت متین نے جاوید نامہ کا ترکی ترجمہ شائع کر رکھا ہے۔ ڈاکٹر ارکان ترکمان کی علامہ اقبال اور مولانا رومی پہ کتاب شائع ہو چکی ہے۔بال جبریل کا ترکی زبان میں ترجمہ جبرائیل کناڈی کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ترکی زبان میں یوسف کپلان کی ایک کتاب کا عنوان ہے: اقبال دسونسیسی۔ڈاکٹر رحیم آچار نے اقبال کے خطبات کا ترکی زبان میں ترجمہ کررکھا ہے جو شائع ہو چکا ہے۔ رحیم آچار ہاورڈ یونیورسٹی میں اقبال پر متعدد خطبے دے چکے ہیں۔ ترک سکالر احسان علی آچق کی کتاب محمد اقبال کے عنوان سے چھپ چکی ہے۔ مشہور امریکی قانون دان جسٹس ولیم او ڈوگلس کی علامہ صاحب کے متعلق یہ رائے تھی: His tomb is a place of pilgrimage to me. For Iqbal was a man who belonged to all races. Although Iqbal was a son of Pakistan, we of America also claim him یاد رہے کہ کولمبیا یونیورسٹی پریس نیوہارک سے شائع ہونے والی کتاب '' اقبال، پوئٹ، فلاسفر آف پاکستان' کا دیباچہ جسٹس ولیم اوڈوگلس نے لکھا تھا۔ انڈونیشیائی اقبال شناس ڈاکٹر عالم روزوانٹورو کی انڈونیشیائی زبان میں علامہ اقبال پہ کتاب لکھی۔ڈاکٹر گرہارڈ باورنگ جو ییل یونیورسٹی امریکہ Yale University میں پروفیسر ہیں، ان کا مقالہ Iqbal: A Bridge of Understanding Between East and West بہت اہم ہے۔برازیلی مارکو لوچیسی نے اقبالؔ کی فارسی نظموں کا برازیلی زبان میں ترجمہ کیا جو کتابی شکل میں محمد اقبال پریلوڈیو کے نام سے شائع ہوا۔ روسی ڈاکٹر نتالیا پری گارینا جو ماسکو یونیورسٹی میں پروفیسر رہی ہیں انہوں نے اقبالؔ پر روسی زبان میں دو کتابیں لکھی ہیں۔خطبات اقبال کا عربی ترجمہ تجدید التکفیر الدینی فی الاسلام از عباس محمود قاہرہ سے شائع ہوا۔ Souleymane Bachir سینیگال کے ایک فلسفی ہیں انہوں نے فلاسفی آف اقبال کے نام سے ایک کتاب لکھ رکھی ہے۔ حتی کہ گاندھی جی کے پوتے ڈاکٹر راج موہن گاندھی جو ایک امریکی یونیورسٹی میں پروفیسر رہے ہیں نے ایک کتاب لکھی تھی Understanding the Muslim Mind جو کہ ایک اہم کام ہے۔ اس میں ایک پورا باب علامہ اقبال پہ بھی ہے جسے مرد آفاقی کے نام سے اقبال اکیڈمی حیدر آباد دکن نے شائع کیا۔ انقرہ یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر اوزترک کی اقبال کی فلاسفی پر کتاب کا نام بی کمنگ اے جینیوئن مسلم ہے۔ پال اسمتھ نے کلام اقبال کے انگریزی تراجم شائع ہوچکے ہیں۔برطانوی ڈیوڈ جے میتھیوز کی طرف سے انگریزی میں ترجمہ شدہ انتخاب کلام اقبالؔ اوکسفرڈ سے شائع ہوا۔ این میری شمل کی علامہ اقبال پہ جرمن زبان میں تصنیف موجود ہے۔فرانس کی ڈاکٹر ایوا ڈی وٹرے مئیرووچ نے علامہ اقبال کی دو کتابوں اور جاوید نامہ کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کیا۔آسٹریا کے سٹیفن پوپ کی کتاب اقبالز رومینٹیسزم آف پاور ہے۔ انہی کی دوسری کتاب ہے جو جرمن زبان میں لکھی گئی ہے اس کا آسان ترجمہ محمد اقبال مختلف ثقافتوں کے مابین ایک فلسفی'' ہے۔کینیڈا کی ڈاکٹر شیلا میکڈونو جو کونکورڈیا یونیورسٹی مونٹریال میں پروفیسر ایمریطس ہیں کی علامہ اقبالپہ ایک تصنیف ہوپ اینڈ ویژن آف اقبال ہے۔فرانسیسی لوس کلوڈ کی فرانسیسی میں لکھی گئی کتاب فکر اقبال کا تعارف کا انڈونیشیائی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ براک یونیورسٹی کینیڈا میں ابن عربی اور اقبال کے انسان کامل کا تقابلی جائزہ لیا جا چکا ہے۔پروفیسر ہیروجی کاتا اوکا نے بانگ درا اور بال جبریل کے جاپانی تراجم کر رکھے ہیں۔ جناب اعجاز الحق اعجاز صاحب نے اقبالؔ پر پی ایچ ڈی تھیسز کی تفصیل بھی انہوں نے بیان کی ہے جو ٹورنٹو یونیورسٹی، سے نجم الدین اربکان یونیورسٹی، ہارورڈ یونیورسٹی شکاگو یونیورسٹی اور چارلس یونیورسٹی میں لکھے گئے۔ ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔ کالم شا ئع ہونے تک وہ مزید کئی کتابوں کا ذکر کر چکے ہوں گے۔ معاملہ یہ نہیں کہ پاکستان سے باہر اقبال کو کوئی نہیں جانتا۔ معاملہ یہ ہے کہ ہماری رگوں سے نو آبادیاتی غلامی کا فکری آسیب نکل نہیں پا رہا اور نو آبادیاتی جنٹل مین صرف انگریزی میں لکھے کو حرف آخر مانتے ہیں۔ ٓٓ انہیں کچھ خبر ہی نہیں کہ نوآبادیاتی شعوری غلامی کے اندھے کنویں کے باہر بھی ایک دنیا ہے ۔