اپنا مسکن مری آنکھوں میں بنانے والے خواب ہو جاتے ہیں اس شہر میں آنے والے شکریہ تیرا کہ تونے ہمیں زندہ رکھا ہم کو محرومی کا احساس دلانے والے ویسے یہ محرومی بھی ایک عجب شے ہے کوئی اسے سمجھ لے تو یہ طاقت بن جاتی ہے کبھی کبھی مجھے یہ احساس اس کمی کی طرح لگتا ہے جہاں ہوا گرم ہو کر اوپر اٹھتی ہے تو ادھر ادھر کی بلکہ اردگرد کی ہوا خالی جگہ لینے کی کوشش کرتی ہے اور اس طرح بگولہ وجود میں آتا ہے۔ شاید گرداب کا بننا بھی اس سے ملتا جلتا ہو گا کہ گہرائیوں میں پانی اترتا ہے تو چکرا جاتا ہے۔ سونامی بھی تو اسی طرح کا ایک منظر ہے کہ سمندر میں شگاف پڑتا ہے جسے پر کرنے کے لئے پانی رش کرتا ہے اور پھر ساحل کو بھی پار کر جاتا ہے مجھے یادہے میرے پیارے دوست خالد محمود نے سونامی آنے پر مجھے کہا’’شاہ صاحب: آپ کا یہ شعر سونامی کے باعث 16سال بعد سمجھ میںآیا‘‘ یہ سمندر بھی تو پانی کے سوا کچھ نہیں اس کے سینے سے اگر لہر اٹھا لی جائے جس کے اندر کمی اور محرومی نہیں اس کے اندر کسی تخلیق اور آرزو کی گنجائش نہیں۔ کہتے ہیں تکمیل تو موت کی نشانی ہے کچھ کچا پن اور نامکمل حالت رہنی چاہیے وہی جو منیر نیازی نے کہا تھا کہ ’’کچھ باتیں ان کہی رہنے دو‘ کچھ باتیں ان سنی رہنے دو۔ ساری باتیں کہہ دیں اگر تو باقی کیا رہ جائے گا۔ ویسے محرومی بھی انسان کے بس میں کہاں ہوتی ہے اور زندگی کے زینے چڑھتی ہے۔ کچھ پا لینے کی خواہش اور کچھ کھو دینے کا خوف بڑے بڑے لوگ جو کامیاب نظر آتے ہیں مگر کبھی ان سے پوچھ کر دیکھیں کہ ان کی ذات میں کوئی نہ کوئی خلا رہ جاتا ہے جسے ان کی ساری متاع بھی پر نہیں کر سکتی: محرومیوں کا اور بھی احساس یوں ہوا چاہا تھا جو بھی تیرے سوا مجھ کو مل گیا مجھے اچانک برائوننگ کی نظم کا انڈر ماڈل سارتو یاد آیا جو اتنا بڑا فنکار ہے کہ جو بھی لائن اپنی پینٹنگ پرلگاتا وہ مکمل یعنی پرفیکٹ قسم کی ہوتی ہے۔ یہی چیز اسے اداس کر دیتی ہے کہ تکمیل تو موت کا پتہ دیتی ہے۔ فن میں بھی گنجائش رہنی چاہیے کہ اس میں اختراع اور بہتری لائی جا سکے طلب ہی تو ہمیں آگے بڑھاتی ہے۔ طلب نہ ہو تو رسد کا بھی کوئی کانسیپٹ نہیںرہ جاتا ۔ منیر نیازی نے مصرع کہا تھا’’مجھ میں ہی کچھ کمی تھی کہ بہتر میں ان سے تھا‘‘ رنگ تو خالی خا کے میں ہی پڑ جاتا ہے۔ تب ہی رنگوں کی طلب پیدا ہوتی ہے اور پھر رنگوں کا علم اپنی جگہ ہے، اس کا شعور ملے گا تو یہ استعمال ہونگے۔ آپ کلر بلائنڈ بھی تو ہو سکتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ خاکے میں رنگ بھرنا ہو تو اس کے مطالبات و لوازمات کی ضرورت پڑتی ہے اور پھر اس کے پیچھے اس فن کو حاصل کرنے کا ذوق و شوق بھی تو لازم ہے۔ اس کی جمالیات میں قوس قزح اور کہکشاں اترتی ہے کہیں رنگ جھلملاتے ہیں اور کہیں ستارے ٹمٹماتے ہیں اسے کالرج کی طرح شبنم کے قطرے رات کے آنسو نظر آتے ہیں اورپھر یہ اوس کے قطرے صبح دم گھاس پر موتی بن کر چمکتے ہیں یہی تو تخلیق کا عمل ہے کہ اس میں شدید درد کے احساس سے گزرنا پڑتا ہے یہ کسی شاعر سے پوچھ کر دیکھو کہ جس کے ذہن میں کوئی خوبصورت مصرع تخلیق پانے کے عمل میں رک گیا ہو۔ بعض اوقات ایسا ہی احساس جاںگزیں ہی ہو جاتا ہے اور تخلیق کار کی بے بسی سامنے آ جاتی ہے: باب حریم حرف کو کھولا نہیں گیا لکھنا جو چاہتے تھے وہ لکھا نہیں گیا بعض اوقات یہ عمل عجیب و غریب ہوتا ہے بہت پراسرار کچھ کھلتا نہیں۔ خاص طور پر مظاہر فطرت جب آپ پر منکشف ہوتے ہیں تو کوریگانہ کہہ اٹھتا ہے: یہ کنارا چلا کہ نائو چلی کہیے کیا بات دھیان میں آئی علم کیا علم کی حقیقت کیا کہیے کیا بات دھیان میں آئی آپ یقین کیجئے کہ کالم تو مجھے اور لکھنا تھا بس یونہی محرومی کا لفظ آیا تو اس نے سوچ کے در کھول دیے مجھے منٹو کا انداز بھی یاد آ گیا کہ کہتے ہیں وہ کاغذ پر پہلا جملہ رکھ دیتے تھے اور بس۔ پھر اس سے افسانہ خود ہی بن جاتا تھا۔ مگر وہ تو ایک ذہن رسا تھے۔ مگر لکھا انہوں نے بھی محرومیوں کے حوالے سے مگر ہمارے لئے تو وہ شجر ممنوعہ ہے۔ بات ہو رہی تھی کہ یہ جو انسان میں اور خاص طورپر تخلیق کار میں کمی کا احساس ہوتا ہے یہ بڑے کام کی چیز ہوتا ہے۔ ایسا پیمانہ چھلکتا بھی نہیں ہے میں ایک مرتبہ کلاسیکل کے حوالے سے ٹی ایس ایلیٹ کو پڑھ رہا تھا تو اس نے لکھا کہ کلاسیکل زبان میں مزید کہنے کی گنجائش کم ہوتی ہے اس حوالے سے بڑی چالاکی سے اس نے انگریزی کو کلاسیکل نہیں کہا کہ اس میں کہنے کی بہت گنجائشیں ہیں۔ بات مگر دل کو لگتی ہے جب کہنے کے لئے گنجائش نہ رہے تو پھر بندہ کیا کرے ۔ تبھی تو ملٹن کی پیراڈئز لاسٹ۔ Paradise Lostکے بعد ورڈ رورتھ نے زسٹک یعنی دیہاتی کی زبان استعمال کرنے کا فیصلہ کیا کہ علمی کمی تخلیق سے پوری کر دی جائے گی۔ وہ اپنا کانٹا بدل کر کامیاب رہا۔ مگر اس کے موقف کا کلائمکس میں نظر آ جاتا ہے جو ڈکشن میں ایک کلاس ہے۔ معلوم نہیں میں اپنی بات سمجھانے میں کامیاب ہوا ہوں یا نہیں یا پھر معنی در باطن ہیں۔ میں نے تو جس کو بھی پڑھایا مجھے اس کے اندر یہی فورس یعنی طاقت نظر آئی کہ اس نے خود کو مکمل کرنے کی سعی کی تو اسے زندگی کرنا آئی۔ وہی جو غالب نے کہا تھا’’نہ ہونا تو جینے کا مزہ کیا‘‘ بلکہ پہلا مصرع تو زیادہ بلیغ اور انوکھا ہے’’ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا‘‘ ambitiousتو وہی ہو گا جو اپنی کمی پوری کرنے کے لئے تگ و دو کرے گا۔ فیض صاحب یاد آ گئے: اپنی تکمیل کر رہا ہوں میں ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں ویسے تو دونوں پارٹیوں کی تکمیل کی یہی ایک صورت ہے ’’کہ تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لئے‘‘ سچی بات یہ کہ عرصہ کے بعد میں نے اپنے کالم کو تھوڑا سا ادبی ٹچ دے دیا کہ سیاست بہت ہو چکی، ذہن زیادہ بھر جائے تو دل کی بات بھی کر لینے میں کچھ حرج نہیں۔ ایک بات بتائوں کہ انسان بعض اوقات لوگوں کی محرومیاں اور کمیاں اپنے اندر محسوس کرتا ہے تو پھر وہ بڑا آدمی بنتا ہے اور ایک رہنما لیڈر مصلح یا پھر ایسا ہی اپنے سائے سے بڑھا ہوا انسان۔