بھارتی عدلیہ نے ایک اور متنازعہ فیصلہ دیتے ہوئے بابری مسجد کی شہادت میں ملوث تمام 32ملزمان کو بری کر دیا ہے۔ خصوصی عدالت کے جج سریندر کمار یادو نے کہا ہے کہ بابری مسجد کو منصوبہ بندی کے ساتھ شہید نہیں کیا گیا۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چودھری نے کہا ہے کہ پاکستان بابری مسجد شہید کرنے والے مجرموں کی بریت کی پر زور الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ بھارتی حکومت اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے ساتھ ہی بھارت میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہونے کا آغاز ہوا‘ہندو دہشت گرد ہجوم کی شکل میں مسلمانوں کی املاک اور جان و مال کو نقصان پہنچانا شروع ہوئے‘ جسے مودی انتظامیہ نے روکا نہ ہی وہاں کے قومی سلامتی کے ادارے حرکت میں آئے۔ بلکہ الٹا جب مسلم تنظیمیں اپنے مقدمات لے کر عدالت کے پاس گئیں تو عدالت نے یکطرفہ طور پر ہندوئوں کے حق میں فیصلہ دے کر مسلمانوں کو انصاف کی دھجیاں اڑا دیں۔6دسمبر 1992ء میں جب بابری مسجد شہید ہوئی تو اس وقت لال کرشن ایڈوانی‘ اوما بھارتی‘ونٹے کٹیار‘ ونشو ہری ڈالمیا اور سادھوی رتمھبرا کے خلاف دفعات 153اے 153بی اور 505کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ ہندو لیڈر کئی جلسوں اور بھری مجلسوں میں اس بات کا سرعام اعتراف بھی کر چکے ہیں کہ انہوں نے بابری مسجد کی شہادت میں حصہ لیا تھا ۔بابری مسجد شہادت کے مرکزی ملزم جے بھگوان گوبل نے تو سرعام کہا ہے’’ کہ ہم نے مسجد توڑی تھی اگر عدالت سزا دیتی تو ہم بخوشی سے قبول کرتے، عدالت نے سزا نہیں دی۔ یہ ہندو مذہب کی فتح ہے‘‘۔ آج بھی انٹر نیٹ پر بابری مسجد شہید کرنے والوں کی ویڈیو موجود ہے، جس میں اوما بھارتی اور مرلی منوہر جوشی مسجد کی شہادت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کے باوجود خصوصی عدالت کا تمام افراد کو کلین چٹ دینا بھارتی مسلمانوں پر ظلم اور ہندوانہ تعصب کی واضح مثال ہے ۔ 9نومبر 2019ء کو بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے اپنے فیصلے میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ بابری مسجد کی تعمیر کسی مندر کو توڑ کر نہیں کی گئی تھی‘ چنانچہ بابری مسجد کے اندر مورتی رکھنے اور پھر اسے توڑنے کو مجرمانہ عمل قرار دیا گیا تھا۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ جن لوگوں کی شہہ پر یہ کام ہوا وہ بھی مجرم ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں کہہ رہی ہے کہ بابری مسجد شہید کرنے والے مجرم ہیں تو پھر سی بی آئی کی نظر میں سب بے گناہ کیسے ہو گئے؟ اس سے قبل مودی سرکار نے بابری مسجد کا فیصلہ دینے والے جج کو بعداز ریٹائرڈمنٹ لوک سبھا میں خصوصی نشست پر ممبر اسمبلی بنایا ہے جبکہ مودی کے اس فیصلے پر نہ صرف مسلم تنظیموں بلکہ کانگرس نے بھی کڑی تنقید کی تھی لیکن مودی سرکار بدستور اقلیتوں کو دیوار سے لگانے میں مگن ہے۔ گزشتہ روز بھی نواب آف جونا گڑھ خواجہ جہانگیر نے اپنے ویڈیو پیغام میں ہندوستان کا اصل چہرہ بے نقاب کیا ہے۔ انہوں نے تقسیم ہندوستان کی دردناک داستان دنیا کو سامنے رکھ کر بھارت کے منافقانہ کردار ‘ دہرے معیار‘ اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی پامالی کی حقیقت اجاگر کر کے اس کا اصل چہرہ بے نقاب کیا ہے۔ نواب آف جونا گڑھ نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ریاست جونا گڑھ کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی جونا گڑھ سٹیٹ کونسل نے باقاعدہ منظوری دی تھی لیکن بھارت نے 9نومبر 1947ء کو پاکستان سے الحاق کے جواب میں فوج کشی کر کے اس پر بھی قبضہ کر لیا۔ ایسے ہی مقبوضہ کشمیر کے عوام کی خواہشات کو روند کر وادی کے عوام کو قید کر رکھا گیاہے۔نواب آف جونا گڑھ نے واضح کیا ہے کہ اگر بھارت ریفرنڈم پر اتنا ہی یقین رکھتا ہے تو پھر کشمیر میں کیوں نہیں کرواتا حالانکہ اقوام متحدہ کی کئی قراردادیں کشمیر پر آ چکی ہیں۔ بھارت میں اقلیتوں پر مظالم ان کی نسل کشی‘ عبادت گاہوں کی تعمیر پر پابندی جیسے مسائل جب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اجاگر کیے تو مودی سرکار نے اس پر پابندی عائد کر دی۔ اس کے سٹاف کو ہراساں کیا‘ دفاتر پر تالہ بندی اور جگہ جگہ مشکلات کھڑی کیں، مصائب سے تنگ آ کر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت میں اپنے تمام دفاتر بند کر دیے ہیں۔ عالمی برادری انسانی حقوق کی تنظیمیں،او آئی سی سمیت 57اسلامی ممالک بھارت کی اس ہٹ دھرمی پر خاموش ہیں۔ مودی سرکار پہلے دن سے ہی بابری مسجد کے ملزموں کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے بیتاب تھی۔ اگر اس کیس میں ایل کے ایڈوانی کا نام نہ ہوتا تو مودی کئی عرصہ پہلے ملزمان کو ریلیف دے دیتا۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمون کے سربراہ نے برملا کہا ہے’’کہ یہ بھارتی تاریخ کا ایک کالا دن ہے۔ ہر کوئی آج دلی درد اور تکلیف کو محسوس کر رہاہے۔ یہ فیصلہ بھارت کے سیکولرازم کی حقیقی تصویر پیش کرتا ہے‘‘۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اس فیصلے سے عدم اتفاق کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب تک بھارتی عدالتوں میں متعصب ہندو ججز بیٹھے ہوئے ہیں تب تک مسلمانوں کو ان عدالتوں سے انصاف ملنا بہت مشکل ہے۔ بھارتی مسلمان ایک کنبہ بن کر ہندو توا کا مقابلہ کریں ۔ اگر وہ گروہوں اور ٹکڑوں میں بٹے رہے تو پھر مودی سرکار کی چال بازیوں کا مقابلہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔ عالمی برادری بھی بھارت میں انصاف کے قتل کا نوٹس لے، اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے اقدامات اٹھائے جائیں۔ اس کیس میں بری ہونے کے بعد ہندو مسلمانوں کی املاک ،کاروبار، گھر، دکانیں، حتیٰ کہ جانیں تک محفوظ نہیں ہونگی۔ اس لئے عالمی برادری بھارت میں اقلیتوں کے تحفظ کے لئے امن فورس کی تعیناتی بارے غور کرے تاکہ کروڑوں افراد پر مشتمل اقلیتوں کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔