دنیا میں جہاں جہاں بھی کامیاب انقلابات آئے ،وہاں کے معروضی حالات کاادراک کرکے ہی لائے گئے، ان ممالک کے سیاسی دانشوروں نے اپنے اپنے زمینی حقائق کو پوری طرح جانچنے کے بعد جدوجہد شروع کی،پاکستان واحد ملک ہے جہاں سیاسی دانشوروں نے روس اور چین کے انقلابات اسلام آباد میں برپا کرنے کی سعی کی،انقلاب کی آرزو میں مبتلا کرکے ایک پوری روشن خیال نسل کو برباد کیا گیا، پہلے مارکس، لینن اور ماؤڑے تنگ کو پڑھوایا گیا پھر ان کی آنکھوں کی روشنی چھین لی گئی،انقلاب کا راستہ رد انقلاب کی شاہراہ بنادیا گیا، ملک و قوم کے کئی قیمتی سال اس بحث میں گزرگئے کہ پاکستان میں کمیون ازم ہونا چاہئیے یا سوشل ازم ،میرے شعور کی آنکھ اس وقت کھلی تھی جب ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کیخلاف بغاوت کرکے پاکستان کے عوام کو اپنے گرد جمع کیا اور ایک نیا سویرا لانے کیلئے سیاسی تبدیلی کی بنیاد رکھی۔ روٹی کپڑا اور مکان کا دلفریب نعرہ دیا،آدھا پاکستان سرخ ہوگیا اور آدھا سبز ہی رہا، پھر وہ وقت دیکھا گیا جب دونوں انقلابی گروہوں کو کئی سال تک قبض رہی۔ اس ملک میں سوشلزم یا کمیونزم لانے کی جدوجہد کی جا رہی تھی جو تاریخ انسانی، تاریخ معاشرت و جغرافیہ میں پہلی مملکت تھی جو مذہب اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آئی، اسرائیل کا جنم ایک سال بعد ہوا، اس ساری تمہید کا مقصد تین ہفتے پہلے بننے والی نئی حکومت کے قائدین کے سامنے یہ سوال اٹھانا ہے کہ وہ بھی ماضی کے مزار دانش وروں کی طرح بڑھکیں مار کر پسپائی کیوں اختیار کرلیتے ہیں،اچھا نہیں کہ بڑھکیں ماری ہی نہ جائیں، حکومت کسی اسکول کا نام نہیں ہوتا جس میں سیاستدانوں کو پڑھایا جاتا ہو، پاکستان میں سیاست کرنے کیلئے کسی بھی مہنگے اسکول میں داخلے کی ضرورت نہیں،عام لوگوں سے ملنا جلنا رہے تو سارے سبق پڑھے جا سکتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ء میں احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کیا، یہ بھی تاریخ کا ہی حصہ ہے کہ قائد اعظم نے سر ظفر اللہ خان کو پاکستان کا وزیر خارجہ بنایا،اس شخص نے قائد اعظم کے کہنے پر ریڈ کلف کمشن کے سامنے پاکستان کا مقدمہ پیش کیا تھا،1931ء میں دہلی میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت بھی کی، مگر دوسری جانب انہی کی وجہ سے 1953ء میں فساد کو روکنے کیلئے لاہور میں مارشل لا لگانا پڑا ، پاکستان میں تحریک ختم نبوت کو بھٹو کی حکومت میں سند تکمیل ملی، مگر اس اقدام سے یہ تحریک ختم نہیں مضبوط ہوئی، کیوں ؟ کبھی کسی نے یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی، اب پھر یہ ایشو اوپن ہوا ہے، نئی حکومت کی اقتصادی مشاورتی کمیٹی میں ایک زیرک ماہر اقتصادیات و معاشیات کو رکن بنایا گیا تو علمائے کرام کے حلقوں میں شور اٹھا کہ اس شخص کاتعلق( جسے نوبل انعام بھی ملنے والا ہے) ایک مخصوص اقلیت سے ہے،حکومتی حلقوں نے اس احتجاج کو پہلے تو مسترد کرتے ہوئے یہ دلیل دی کہ کسی بھی آدمی کی مہارت کا مذہب سے تعلق نہیں ہوتا، وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نیوز چینلز پر نمودار ہوئے اور میاں عاطف کے انتخاب کی وکالت کرتے ہوئے کہا، یہ ملک اقلیتوں کا بھی اتنا ہی ہے جتنا اکثریت کا ،ابھی چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ حکومت کو اس ماہر معاشیات کی نامزدگی واپس لینا پڑی، اور فواد چوہدری نیوز چینلز کی اسکرینوں پر پھر یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ چونکہ علماء کرام کا احترام بہت ضروری ہے،اس لئے یہ نامزدگی واپس لی جا رہی ، وزیر اعظم عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائمہ گولڈاسمتھ نے اس نامزدگی کے واپس لئے جانے کو مایوس کن قرار دیا، ایک اور ردعمل بھی دیکھنے کو ملا، اقتصادی مشاورتی کمیٹی کے ایک دوسرے رکن عاصم خواجہ نے احتجاجاً کمیٹی سے استعفیٰ دیدیا۔ میرے خیال میں عمران خان کو اپنا نام سیاسی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھوانے کا ایک بڑا موقع ملا ہے جسے ضائع نہیں کیا جانا چاہئیے، انہیں اس ایشو پر تمام مکاتب فکر کے مذہبی راہنماؤں کی ایک کمیٹی بنا دینی چاہئے،اس کمیٹی کو ایک مناسب وقت اور ٹارگٹ دیا جائے کہ وہ اس مخصوس مذہبی اقلیت کی حدود و قیود کا تعین کرے، ایسا کرنے سے پاکستان بہت سی قباحتوں سے بچ جائے گا، ابتک ہو یہ رہا ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ امیر ممالک میں اس مذہبی اقلیت کی آڑ میں ہزاروں لوگ سیاسی پناہیں لے رہے ہیں، پاکستان پر پہلے ہی مذہبی دہشت گردی کے بہت الزام ہیں، پاکستان کو اب ایسے الزامات سے بچانا بہت ضروری ہے۔ ٭٭٭٭٭ اور اب ایک کہانی ، ایک سچ پاکستان کی تاریخ کے طویل ترین مارشل لائی دور میں ، آزادی صحافت کے لئے جہد مسلسل پر مجھے ,,,, اخباری صنعت کا ہیرو ،،، قرار دیا گیا تو میرے چاہنے والوں کی تعداد اور بھی بڑھ گئی، میں جہاں بھی ہوتا،جہاں بھی جاتا اتنے لوگ ملتے کہ ان کے نام بھی یاد نہیں رکھ سکتا تھا، سب سے زیادہ پذیرائی کراچی میں ملا کرتی تھی۔ پریس کلب پہنچتے ہی پتہ نہیں کہاں کہاں سے لوگ ملنے آجاتے ، انہی پرستاروں میں ایک تھا حسینی۔ وہ تو میرے پہنچنے کے پانچ منٹ بعد ہی سامنے کھڑا ہوتا، میں سوچتا ، کیا یہ جادوگر ہے؟ اسے خواب آتا ہے کہ میں کب کہاں ہوں گا، اس کے چہرے پر جاندار مسکراہٹ رہتی ، اس کے ہاتھوںمیں گولڈ لیف کی ڈبیا اور پان کا لفافہ ہوتا ، جب میرا ہاتھ پان کے لفافے کی جانب بڑھتا تو وہ خود ایک پان نکال دیتا اور کہتا، باقی میرے پاس ہیں ، وہ مجھے احساس دلاتا کہ پان اور سگریٹ پکڑ لئے تو میرے ہاتھ تھک جائیں گے، یہ اس کے مجھ سے لگاؤ کی انتہا لگتی تھی، وہ مجھ سے وعدہ لیتاکہ میں کراچی میں قیام کے دوران ناشتہ ، لنچ اور ڈنر اس کے ساتھ کروں گا، وہ کھانے کے لئے مجھے مہنگے ہوٹلوں میں لے جاتا، خوش مزاج اور باتونی تھا، اس کے ساتھ میں بھی خود کو ریلیکس محسوس کرتا،میں کئی باراسے صحافیوں اور اخباری کارکنوں کی تنظیموں کی میٹنگز میں بھی ساتھ لے جاتا،یہ سلسلہ کئی سال چلتا رہا، ایک بار میں کراچی پہنچا تو وہ نہ آیا، مجھے اس کی سنگت کی عادت پڑ چکی تھی، وہ بار بار یاد آیا تو میں نے اسے ڈھونڈنے کی ٹھان لی، شدید گرم دن تھا، میں صدر کے علاقے میں ان تمام جگہوں پر گیا جہاں جہاں وہ مجھے لے کر جاتا رہا،، کوئی سرا نہ مل رہا تھااس کا، بڑی تگ و دو کے بعد مجھے اس ایریا کا نام مل گیا ، میں بس میں بیٹھ کر وہاں پہنچا تو انتہائی غریب لوگوں کی نو آباد بستی تھی، عورتوںاور بچوں کو ہاتھ والے نل سے پانی بھرنے کے لئے ایک لمبی قطار میں کھڑے دیکھا، پوچھتے پوچھتے بالآخر میں ایک دروازے تک پہنچ ہی گیا، دروازہ تھوڑا سا کھلا ہواتھا، میں بار بار کھٹکھٹاتا رہا، کوئی باہر آیا نہ اندرسے کوئی آہٹ سنائی دی، میں نے اس گھرکے اندر داخل ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے دروازہ کھول لیا، ایک چھوٹا سا کچا صحن اور اس سے آگے ایک چھوٹا ساگارے سے بنا ہوا کمرہ ، کمرے میں انتہائی گرمی کے باوجود زمین پر دری بچھائے اور چادراوڑھے وہ سو رہا تھا، کمرے میں مٹی کی ایک صراحی، گلاس،پلیٹ اور سگریٹ کے ٹوٹوں کے سوا کوئی اور کوئی شے نہ تھی، میں نے اسے جگایا،، پسینے سے شرابور اس کاجسم تپ رہا تھا، مجھے دیکھ کر وہ پریشان نہ ہوا، دوا دارو تو دور وہ دو دن سے بھوکا بھی تھا۔ حسینی نے بلا کسی لگی لپٹی کے بتایا کہ وہ ایک انٹیلی جنس افسر کے لئے آؤٹ سورس کے طور پر کام کرتا تھا، اسے میرے بارے میں اطلاعات وہی افسردیتا تھا اور مجھ پر جو خرچہ ہوتا تھا اس کی ادائیگی بھی انٹیلی جنس ایجنسی ہی کرتی تھی، وہ کراچی میں میری ساری مصروفیات کی رپورٹ دیا کرتاتھا، اس افسر کا تبادلہ یا ترقی ہوئی تو اس نے حسینی سے رابطہ ختم کردیا،اب حسینی بے روزگار تھا،باتوں کے دوران حسینی شرمندہ تھا نہ میںحیران… میں نے اسے اٹھاتے ہوئے کہا، چلو آج میں تمہارا میزبان بنوں گا۔