باجوڑ میں خودکش حملے میں شہید 55افراد کے لواحقین اور مولانا فضل الرحمن سے تعزیت بنتی ہے۔سیاست میں اختلاف ہوتا ہے لیکن اسے دشمنی کی شکل نہیں دینی چاہئے ۔ سیاست کو سماجی آرٹ سمجھتا ہوں اس لئے کچھ پہلوئوں پر میرا نقطہ نظر ممکن ہے اکثریتی رائے سے الگ ہو‘ باجوڑ کا واقعہ بھی ایسا ہی ہے جو میرے خیال میں پی ڈی ایم کی بے اصولی سیاست پر عوامی ردعمل کا شکار ہو رہا ہے۔اس واقعہ کو تھوڑی دیر کے لئے پی ڈی ایم اور سیاست سے الگ کر دیتے ہیں۔اب خالصتاً انسانی بنیاد پر جائزہ لیں۔اس اجتماع میں ایک ایسا بارہ تیرہ سال کا خوبصورت بچہ بھی مارا گیا جو پڑھائی کے ساتھ چپس بیچ کر گھر کی کفالت کر رہا تھا۔اس ورکرز کنونشن میں ایسا دلہا جان سے گیا جس کی شادی کو ابھی مہینہ بھی نہیں ہوا تھا۔میکے سے اس کی دلہن واپس آ چکی تھی ،بھائی نے آخری کال کی کہ گھر آ جاو ، جواب دیا تھوڑا تاخیر سے آوں گا ۔اس کی دلہن اور گھر والے سکتے میں ہیں۔جانے دل میں گداز اور آنکھوں میں آنسو لانے والی کتنی اور کہانیاں ماری گئیں۔ہم ان کہانیوں سے منہ موڑ کر محض اس لئے دوسری طرف کیوں دیکھ رہے ہیں کہ یہ سب جے یو آئی کے حامی اور کارکن تھے۔ قبائلی علاقے ملک آزاد ہونے کے بعد سے معمول کے جمہوری اور انتخابی نظام سے باہر رہے تھے۔ جناب یار محمد رند جب سرحدی امور کے وزیر تھے تو انہوں نے مجھے ایک دستاویز تحفہ میں دی۔اس دستاویز پر قائداعظم کے دستخط ہیں اور انہوں نے قبائلی علاقوں کا انتظام بطور گورنر جنرل اپنے پاس رکھنے کی تحریری سند دی۔یار محمد رند اس بات پر فخر کرتے تھے کہ وہ قائد اعظم کی وزارت کے مختار ہیں۔ قائد نے قبائلی عوام سے خصوصی محبت کے ضمن میں ایسا کیا۔دوسری وجہ یہ تھی کہ قبائلی عوام نے ملک آزاد ہوتے ہی پاکستان کی آزاد فوج کا کردار ادا کیا۔نو آزاد پاکستان کے انگریز آرمی چیف نے کشمیر کے معاملے پر بھارت کی فوج سے لڑنے کی مخالفت کی‘ ایسے میں قبائلی جنگجو آگے بڑھے اور بھارت سے کشمیر کا بڑا حصہ چھین لیا۔یہ حصہ اب آزاد کشمیرکہلاتا ہے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور اور پھر 1901ء تک انگریز راج میں پشاور تک کا علاقہ پنجاب کا حصہ تھا۔شمال مغربی سرحدی صوبہ کی حیثیت انگریز نے اسے دی۔جو علاقے پنجاب کا حصہ رہے وہاں مختلف ادوار کے سماجی اور ثقافتی مظاہر نے لوگوں میں ایک دوسرے کے لئے خاص طرح کی گنجائش پیدا کی۔قبائلی علاقے اس ہم آہنگی سے کٹے رہے۔قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد قبائلی علاقوں میں سیاسی اور انتظامی اصلاحات کی ضرورت تھی لیکن حکمرانوں کی مصلحتوں نے اس سے پہلو تہی کی۔قبائلی سیاسی فہم میں پسماندہ رہ گئے،وہ صرف مذہبی سوچ کو ہی سیاسی آزادی سمجھنے لگے۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام قبائلی علاقوں میں متحرک رہی ہیں۔ شائد ان کے اس تحرک کی وجہ جنرل ضیاء کے دور میں افغان جہاد سے متعلق ریاست کی پالیسی ہو گی۔ اس پالیسی میں کسی غیر مذہبی جماعت کے لئے قبائلی علاقوں میں کوئی کردار نہیں تھا۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب ریاست نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا تو جماعت اسلامی اور جے یو آئی کو سیاسی طور پر طاقتور بنا کر ان سے قبائلی علاقوں میں ٹارگٹڈ کام لئے۔ دونوں جماعتوں نے کوشش کی کہ اپے خیر خواہوں کو نئی حقیقتوں سے آگاہ کر کے ریاست کا ساتھ دینے پر آمادہ کریں۔ جن لوگوں نے ان کی نہیں مانی وہ الگ عسکری شناخت والے بنے۔جماعت اسلامی اور جے یو آئی کی پالیسی میں شفٹ سے ایک سیاسی گنجائش بنی جسے پی ٹی آئی نے پُر کیا۔دونوں جماعتیں ایم ایم اے کا حصہ تھیں اور قبائلیوں پر ڈرون و میزائل حملے روک نہیں پا رہی تھیں‘ تحریک انصاف نے ان حملوں کی مخالفت کی۔قبائلی علاقے میں دھرنا دیا‘ نیٹو کی سپلائی روکنے کا مطالبہ کیا۔قبائل کے علاقے پی ٹی آئی کے حامی بن گئے۔اس دوران قبائلی علاقوں کو انتظامی طور پر خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی تحریک چلی۔تحریک انصاف نے اسے لیڈ کیا۔ جمعیت علمائے اسلام نے مخالفت کی۔اس مخالفت کی ٹھوس وجہ آج تک سامنے نہیں آ سکی۔قبائلی علاقے 2018ء میں خیبر پختونخوا کا حصہ بنا دیے گئے۔بار بار ریاستی پالیسیوں نے مقامی آبادی کو متاثر کیا اور ردعمل میں ایک مقامی تحریک نے جنم لیا جس کے دو نمائندے علی وزیر اور محسن داوڑ کی صورت میں قومی اسمبلی میں بیٹھے ہیں۔ قبائلی اضلاع میں ترقیاتی انفراسٹرکچر کی کمی ہے۔تعلیم اور صحت کے ادارے نہیں‘ کھیلوں کی سہولیات نہیں۔چند جگہ پاک فوج نے سہولیات تعمیر کی ہیں لیکن حکومتی سطح پر کام سامنے نہیں آ رہے۔ دراصل قبائلی اضلاع میں ترقیاتی ڈھانچے اور سیاسی تربیت کا عملی پہلو چلتا ہے‘ کسی ایک کو روک کر دوسرے کو رواں نہیں رکھا جا سکتا۔جو لوگ پاکستان کی ترقی اور مستقبل کے معاشی امکانات کو روکنا چاہتے ہیں وہ قبائلی اضلاع میں پرامن سیاسی پیشرفت کو اپنے منصوبے میں رکاوٹ تصور کرتے ہیں۔جمعیت علماء اسلام نے باجوڑ میں ورکرز کنونشن بلا رکھا تھا۔اس ورکر کنونشن میں مقامی کارکنوں کو مدعو کر کے آئندہ انتخابات کے لئے مشاورت کی جا رہی تھی۔تشدد اور عسکریت سے متاثرہ علاقے میں جمہوریت کی حامی قوتوں کا کارکنوں سے مشاورت کا سلسلہ مثبت چیز ہے۔ممکن ہے جمعیت علماء اسلام دیگر علاقوں کے لئے دوسری حکمت عملی اختیار کرتی ہو لیکن قبائلی مزاج کو پیش نظر رکھ کر سیاسی حکمت عملی ترتیب دینا ریاست کی نئی ضرورتوں سے ہم آہنگ ہے۔ باجوڑ میں خودکش حملے کا نشانہ پاکستان کی سیاست‘ انتخابات اور ریاست ایک ساتھ ہوئیں۔اس بات کی تحقیق ہونی چاہیے کہ یہ سانحہ کیوں ہوا۔دہشت گردوں کی ناکامی یہ ہو گی کہ قبائلی علاقے سمیت پورے ملک میں انتخابات بروقت ہو جائیں۔باجوڑ سانحہ نے ایک گنجائش اور سیاسی مکالمے میں واپسی کیلئے تحریک انصاف کو موقع دیا ہے۔ تحریک انصاف کو مرنے والے خاندانوں اور جے یو آئی قیادت سے تعزیت کر کے ملک میں سیاسی استحکام کے لئے آگے بڑھنا چاہیے۔