کیسی ستم ظریفی ہے کہ جنوبی ایشیا کے تقریباً سبھی ممالک ایک کثیر جہتی اور جمہوری پڑوسی ملک بھارت کے بجائے ایک آہنی نظام کے ملک چین کے ساتھ اطمینان محسوس کرتے ہیں۔ ہونا تویہ چاہئے تھا کہ بھارت ان سبھی ممالک کیلئے مشعل راہ ہوتا اور اسکی مشفق خارجہ پالیسی ایک مہربان بڑے بھائی کی طرح ان کے مفادات کا خیال رکھ کر خطے کی تعمیر و ترقی کا ضامن بن جاتی۔ مگر برسوں سے بھارت کا رویہ اس خطے میں نوآبادیاتی طرز کا رہا ہے اور 2014ء میں نریندر مودی کے برسراقتدار میں آنے کے بعد اس میں مزید شدت آگئی ہے۔افریقی ملک ماریشس سمیت جنوبی ایشیا کے دو اہم ممالک کے بڑے میڈیا ادارے بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے مرہون منت ہیں۔ ا ن ممالک میں بھارت نے لگاتار طبقہ اشرافیہ، آمرانہ نظام اور میڈیا کے چند اداروں پر مراعات کی بارش کرکے عوامی خواہشات و رجحانات کو نظر انداز کرکے اپنے مفادات کی تکمیل کی ہے۔جس کی حالیہ مثال نیپال ہے۔ جون 2015ء میں جب نیپال کی تمام سیاسی جماعتیں متفقہ طور پر آئین کے مسودہ پر رضامند ہوگئیں، تو بھارت نے اس پر سخت اعتراض جتایا۔ بھارتی حکومت کا موقف تھا کہ ترائی کے علاقے میں رہنے والے بھارت نژاد مدھیہشی اور تھاروز نسل کے افراد کو پارلیمنٹ میں متناسب نمائندگی دی جائے۔ اب کوئی بھارتی وزارت خارجہ سے پوچھے کہ یہ متناسب نمائندگی کا فارمولہ وہ خود بھارت میں نافذ کیوں نہیں کرتے، جہاں 195ملین کی مسلم آبادی ، جو کل آبادی کا 15فیصد ہیں، کی پارلیمنٹ میں نمائندگی پانچ فیصد سے آگے بڑھ نہیں پارہی ہے؟ با وثوق ذرائع کے مطابق ، دارلحکومت کھٹمنڈو کے جس کمرے میں سیاسی لیڈران آئین کے مسودہ پر غور و خوض کر رہے تھے، سبھی کے موبائل فون ایک ایک کرکے بجنے لگے۔ یہ کال کھٹمنڈو میں بھارتی سفارت خانے سے کی جارہی تھی، جہاں اس آئین کے مسودہ پر سیاسی جماعتوں کی رضامندی کی خبر پہنچ چکی تھی۔ یہ ان لیڈروں کیلئے سبکی تھی کہ بھارتی سفارت خانے کا کوئی افسر میٹنگ کے دوران ہی ان کو فون کرکے ہدایات دینا چاہتا تھا۔ ایک ایک کرکے سبھی نے اپنے فون بند کردیئے۔ اس آئین کو پارلیمنٹ میںمباحثہ کیلئے پیش کرنے سے روکنے کیلئے اگلے دو ماہ تک بھارت نے خوب تگ و دو کی اور ستمبر میں سیکرٹری خارجہ سبرامنیم جے شنکر(موجودہ وزیر خارجہ) کھٹمنڈو آن پہنچے۔ نیپال کے ایک سینیر سیاسی تجزیہ کار کنک منی ڈکشت کے مطابق جے شنکر کا رویہ خاصا ہتک آمیز اور غیر سفارتی تھا۔ وزیر اعظم مودی کے ایما پر ایک طرح سے وہ نیپالی لیڈروں کیلئے دھمکی بھراپیغام لیکرآئے تھے، جس کو نیپالی کانگریس کے بھارت نواز لیڈروں نے بھی رد کرکے جے شنکر کو بے رنگ لوٹنے پر مجبور کردیا۔ مودی کے حواری اور ہندو قو م پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس مدھیہشیوں کے حقوق سے زیادہ اس بات پر ناراض تھی کہ آئین میں نیپال کو سیکولر ملک قرار دیا گیا تھا۔ اس سے قبل راج شاہی دور میں نیپال دنیا کا واحد ملک تھا ، جہاں سرکاری مذہب ہندو مت تھا ۔ بھارت کی خفیہ ایجنسیاں برسوں سے نیپال کے ترائی علاقے کو خود مختار علاقہ بنانے کی تگ و دو کرتی رہی ہیں، تاکہ کھٹمنڈو اور بھارت کے درمیان ایک طرح کا بفر زون بنایا جائے ۔جو خود مختاری یا حق خود اختیاری بھارت مدھیشی عوام کیلئے تو چاہتی ہے ، مگر خود اسی اختیار کو پچھلے سال اگست میں بھارتی پارلیمینٹ نے کشمیر میں کالعدم قرار دیا۔ جے شنکر کی دہلی واپسی کے بس پانچ دن بعد ہی نیپال کی اقتصادی ناکہ بندی کی گئی۔ حتیٰ کہ نیپال نے اقوام متحدہ میں اس کی شکایت کی۔ خشکی سے محصور ملک کیلئے ا س سے بڑی کیا سزا ہوسکتی ہے کہ اس کی ناکہ بندی کردی جائے۔ مہینوں تک نیپال میں پٹرول پمپ خشک ہوگئے تھے۔ بھارت کی کولکتہ بندرگاہ نیپال کی ایک اہم گذرگا ہ ہے۔ اس بندر گاہ سے نیپالی اشیاء کی ترسیل روک دی گئی۔ 1989ء میں بھی تجارت اور راہداری معاہدہ کی تشکیل نو کے وقت بھارت نے نیپال سرحد سے ملحق 21میں سے 19راہداریاںبند کردی تھیں، تاکہ اس معاہدہ کو بھارت کے موافق بنانے کیلئے دباوٗ بنایا جاسکے۔ یہ ایک ایسے ملک کے ساتھ بھارت کا رویہ ہے ، جو پاکستان یا چین کی طرح کسی بھی طرح اسکی سلامتی کیلئے خطرہ نہیں ہے۔ ایک طرح سے دونوں ملکوں کے درمیان روٹی اور بیٹی کا رشتہ ہے اورہندو اکثریت میں ہیں۔ نیپالی شہری بھارتی فوج میں ملازمت کرتے ہیں۔ بھارتی فوج کی چھ رجمنٹ گھورکھا اور نیپالی سپاہیوں پر مشتمل ہے۔ ان کی تنخواہیں، پنشن وغیرہ بھارت سے آتی ہیں۔ مودی حکومت نے جب 2016ء میں نوٹ بندی کا اعلان کردیا، تو ان لوگوں کو سب سے زیادہ نقصان ہوا۔ ایک اندازہ کے مطابق ملک میں 7بلین بھارتی نقدی پھنسی ہوئی ہے، جس کا متبادل بھارت نے ابھی تک مہیا نہیں کروایا۔ نیپال کے سینٹربنک میں ہی سات کروڑ روپیہ کی بھارتی کرنسی پھنسی ہوئی ہے، جس کو بھارتی ریزرو بنک لینے سے منع کررہا ہے۔ نیپالی آرمی کا سربراہ بھارتی فوج کا اعزازی جنرل ہوتا ہے۔ اسی طرح بھارتی فوج کا سربراہ بھی نیپالی فوج کا اعزازی جنرل ہوتا ہے۔ اتنے گہرے تعلقات کے باوجود نیپال میں عوامی سطح پر بھارت کے تئیں خاصا غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ خود نیپالی وزیر اعظم کے پی شرما اولی الزام لگا چکے ہیں کہ بھارت میں ان کے تختہ پلٹ کی تیاریا ںہو رہی ہیں۔ (جاری ہے)