ایک افسوسناک خبر ملی ہے کہ بھارت کی سنٹرل جیل الور، راجھستان میں پاکستانی قیدی حامد خان ولد محمد حسین،عمر 60 سال نے خود کشی کی کوشش کی ہے ۔یہ قیدی ضلع پشین بلوچستان کا رہائشی ہے۔اس نے کن ھالات میں خود کشی کی یہ کوئی بھید نہیں۔پاکستان کے جو باشندے بھارتی جیلوں میں کسی وجہ سے قید ہیں انہیں مسلسل ایسے ماحول ، دباو اور سختیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی جان لینے پر تیار ہو جاتے ہیں۔حامد خان ولد محمد حسین کی خودکشی کی کوشش کے پیچھے ممکنہ وجوہات میں10 سال کی طویل قید، اس کے نتیجے میں تناؤ اور جیل کی سزا پوری ہونے کے باوجود رہا نہ ہونے کی وجہ سے ذہنی ٹوٹ پھوٹ ہے۔ بھارتی جیلوں میںکم از کم 347 پاکستانی شہری یا ایسے افراد جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی شہری ہیں، جن میں مختلف ایکٹ کے تحت 249 شہری اور 98 ماہی گیر ہیںجو بھارت کی سمندری حدود میں داخل ہوئیاور پکڑ لئے گئے،یہ سب بھارتی جیلوں میں ہیں۔ بھارت نے ان زیر حراست افراد پر سختی اور مظالم کو قانونی جواز دینے کے لئے ان میں سے زیادہ تر قیدیوں پر جموں و کشمیر میں دہشت گردی سے متعلق سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے من گھڑت الزامات عائد کیے ہیں۔ ان میں سے بہت سے قیدیوں کی زندگی انسانی المیہ ہے، بہت سے افراد کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے پاکستانی شہری ہوتے ہوئے سرحد پار شادی کی۔وہ رشتے داری نبھاتے بھارتی ظلم کا شکار ہوئے۔ تقریباً ایک دہائی سے شہریت کے منتظر کئی میاں بیوی قانونی شکنجے میں پھڑ پھڑا رہے ہیں۔ ان کی محبت کی کہانیاں علیحدگی اور جدائی کی المیہ داستانوں میں بدل گئی ہیں کیونکہ بھارتی نوکر شاہی کا عمل آہستہ آہستہ اور زیادہ تر مظلوموں کے خلاف ہوتا ہے۔ بھارتی جیلوں میں قید کچھ بے گناہ پاکستانیوں کو جاسوسی اور دہشت گردی سے متعلق جرائم کے الزامات کا سامنا ہے۔ یہ الزامات، جن کا اکثر ایک دوسرے کی جیلوں میں قید افراد سے تقابل کیا جاتا ہے، انہیں پاک بھارت تعلقات کے پیچیدہ جال سے جوڑ دیتے ہیں۔ جموں و کشمیر کا متنازعہ علاقہ دونوں ملکوں کے ساتھ ساتھ بے گناہ افراد کے لئے مصائب کا ایک مرکزی نقطہ بنا ہوا ہے، جہاں بہت سے لوگوں پر ایسی کارروائیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے جن کے بارے میں فرض کر لیا جاتا ہے کہ وہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔چلتی ہوا اور اڑتے پرندوں جیسے یہ لوگ سخت گیر اہلکاروں کے ہاتھ لگتے ہیں اور زندگی ان سے تمام مہربانیاں چھین لیتی ہے۔ بھارتی جیلوں میں قید تقریباً 76 ایسے پاکستانی قیدی ہیں جو اپنی سزا پوری کر چکے ہیں لیکن وہ رہا نہیں ہو سکے۔بھارتی حکومت ان کی رہائی میں کئی طرح کی رکاوٹیں پیدا کرتی ہے، کبھی ان کی شناخت کا بہانہ، کبھی پاکستان کے سفارتی عملے پر مطلوبہ تعاون نہ فراہم کرنے کا الزام اور کبھی کسی اور جواز سے جیل کی مدت بڑھائی جاتی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک پاکستانی قیدی 1998 میں اپنی مدت حراست پوری کر چکا ہے اور ابھی تک وطن واپسی کا انتظار کر رہا ہے۔ اس طرح کے بہت سے قصے ہیں اور ان کی کہانیاں جیل کی راہداریوں میں گونجتی رہتی ہیں، ان کہانیوں کو سنا نہیں گیا ،بھارتی حکام نے قانونی تقاضے کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردی کا پہلو بھی نظر انداز کر رکھا ہے۔ قیدیوں کے حوالے سے ایک ضابطہ موجود ہے ۔اس ضابطے پر عمل بھی کیا جاتا ہے ۔ دونوں ممالک سال میں دو بار، یکم جنوری اور یکم جولائی کو قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔ پاکستان بھارت پر زور دیتا ہے کہ وہ پاکستانی شہریوں کو رہا کر کے سرحد پار بھیج دے جن کی مدت قید مکمل ہو چکی ہے اور پاکستان میں قید اپنے شہریوں کو واپس لائے جن کی سزائیں ختم ہو چکی ہیں اور جن کی قومیت کی تصدیق ہو چکی ہے لیکن بھارت کا ردعمل ہمیشہ انسانی حوالے سے منفی رہا ہے۔ جیلوں میں قید افراد اور ان کے خاندان طویل تکلیفوں سے گر رہے ہیں۔یہ قیدی مخلوق چاہے ناقص نشان زدہ سمندری حدود کے جال میں پھنسے ہوئے ماہی گیر ہوں یا کراس فائر میں پھنسے شہری، ہمدردی کے مستحق ہیں۔ان کے خاندان ان سے ملنے کو ترس رہے ہیں، انصاف اگر کہیں موجود ہے تو ان کی فوری کارروائی کا مطالبہ کرتا ہے۔ جیسے جیسے سورج جیل کی دیواروں پر غروب ہوتا ہے یہ خاندان مایوس ہوتے ہیں، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ انسانیت سرحدوں سے آگے نکل جاتی ہے،انسانی ہمدردی اس خلا کو ختم کر سکتی ہے جو بے رحم سیاست پیدا کرتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں کہ بھارت کو اپنے قوانین پر عمل کرنا چاہیے اور نسل یا مذہب سے قطع نظر قیدیوں کے ساتھ منصفانہ سلوک یقینی بنانا چاہیے۔ قیدی نے کن حالات مین خود کشی کی کوشش کی ہے ؟وہ بھارت کے نظام انصاف سے مایوس ہوا ہوگا، اسے لگا ہو گا کہ جس طرح غروب ہوتے سورج سے تاریکی بڑھنے لگتی ہے اسی طرح انصاف نہ ملنے پر اس کی دنیا اندھیر ہو رہی ہے۔ ایک قیدی کی خودکشی کی کوشش کے پیچھے وہ ناانصافی ہے جو سزا پوری ہونے کے باوجود اس کی رہائی میں حائل ہے ۔خود کشی کی یہ کوشش مودی حکومت کے لیے ایک واضح یاد دہانی کا کام کرتی ہے۔ بین الاقوامی برادری اور قیدیوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی این جی اوز کو انصاف کے حصول کی خاطر حامد خان کے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے ان تکلیف دہ واقعات کا نوٹس لینا چاہیے۔ بھارتی جیلوں میں قید پاکستانی شہریوں کی حالت زار انسانی مصائب، قانونی پیچیدگیوں اور کشیدہ سفارتی تعلقات کی ایک افسوسناک کہانی ہے۔ یہ افراد اپنے آپ کو جغرافیائی، سیاسی تناؤ کے شکنجے میں پھنسے ہوئے پاتے ہیں۔ان کے لئے کالم نہیں لکھے جاتے ، ان کی حالت زار پر کوئی تبصرہ نہیں کرتا ، یہ جیلوں میں بند کسی بے بس اور غریب خاندان کی زندگی ہیں ۔پاکستان کی نئی حکومت آگے بڑھے اور ان قیدیوں کو رہائی دلائے ۔