خالد بھائی سے عرض کیا: میرا خیال ہے یہ آنے والے الیکشن کا بائیکاٹ کریں گے‘ کون کرے گا؟ ان کا سوال تھا ۔مولانا فضل الرحمن حکمران اتحاد کو مجبور کریں گے کیونکہ جس صوبے میں امید ہے وہاں ان کے لیے کچھ باقی بچا ہی نہیں۔ بولے بائیکاٹ ان کے لیے بہتر ہے الیکشن میں وہ جیت نہیں سکتے۔ ہوسکتا ہے بائیکاٹ میں کوئی دو ایک قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشستیں انہیں مل ہی جائیں‘ بائیکاٹ میں کیسے مل جائیں؟ حیرت کے ساتھ سوال کیا‘ بھائی ’’معجزہ‘‘۔ چھوٹے موٹے معجزے سے ان کا کام نہیں چل سکتا‘ الیکشن لڑ کے جیت جانے کے لیے معجزہ چاہیے‘ چھوٹے موٹے سے کام چلنے کا نہیں‘ کوئی بڑا اعجاز ہی کام آ سکتا ہے اور بڑا معجزہ یہی ہو سکتا ہے کہ انتخاب میں حصہ نہ لیں اور جیت جائیں۔ ایک مولانا ہی کیا‘ دونوں بڑی پارٹیوں کی حالت بھی یکساں ہے۔ بائیکاٹ کا آغاز ہو گیا۔ ابھی ابھی رات گیارہ بجے جب یہ کالم لکھنے کی تیاری کر رہا تھا‘ مولانا فضل الرحمن کے پیچھے درجن بھر کچھ جانے کچھ انجانے نمودار ہوئے اور مولانا نے عدالت عظمیٰ میں جاری مقدمے کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا‘ ابتدا ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف کا مقابلہ ان کے بس میں نہیں‘ ان تیرہ چودہ ڈری سہمی روحوں کو عمران کا خوف ہے۔ انہیں مارشل لاء چاہیے‘ مارشل لاء ہی انہیں ملک سے بھاگنے اور مقدمات سے بچ نکلنے کا موقع دے سکتا ہے۔ اب ان کی ساری امیدیں اپنے سہولت کار سے ہے‘ جس نے بیٹھے بٹھائے ان کے لیے منصوبہ بندی کی سازش رچائی‘ سیاست میں مداخلت کی‘ دوسرے ریاستی اداروں کو شیشے میں اتارا اور ان کے لیے کسی طرح کے استحقاق کے بغیر حکمرانی کی مسند تیار کی‘ پھر سے نظریں ادھر لگی ہیں لیکن سہولت کاری والا اونٹ خود پہاڑ کے نیچے ہے۔ پہاڑ کے بوجھ سے اس کی آنکھیں نکل آئیں اور زبان بھی لٹکی ہوئی ہے جب اسے خود ان کی ضرورت ہے تو یہ جان بچا کر بھاگ نکلنے کی تیاری میں ہیں‘ نوازشریف‘ زرداری اور بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں: لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بے ننگ و نام ہے یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں سب سے بری حالت انہی کی ہے جو ان زود فراموشوں کے لیے بے ننگ و نام کہلائے‘ کپتان ہمارالاغر تو ہے نہیں‘ اس نے بے ننگ و نام کو میر جعفر پکارا‘ میر صادق کہا پھر اپنی سہولت کے لیے اس کا تخلص بلانے لگا‘ نہیں معلوم وہ تخلص بے ننگ و نام نے خود رکھا یا عمران اپنی سہولت کے لیے پکارنے لگا ہے۔ جیسے چیری بلاسم اور ککڑی تیسرا ذکر مناسب نہیں‘ چوتھے کے احترام میں اس کا نام ڈاکو رکھا‘ اتنا کچھ بتا دیا مگر وہ تخلص ہے کیا؟ بھائی اب تو یہ زبان زدعام ہے‘ ہر کوئی جانتا ہر کوئی پکارتا ہے مگر پہچانتا ہے‘ کوئی کوئی۔ سب سے بری اور قابل رحم حالت بھی اس بے چارے کی ہے جس کی قسمت میں ہے اچھوں کا برا ہو جانا۔ ملتان کے ایک مظلوم باپ نے ناہنجار بیٹے کے برے بلکہ بہت برے سلوک پر کہا تھا کہ پھول چبھتے ہیں صبا سے میرا دم گھٹتا ہے۔ میری قسمت میں ہے‘ اچھوں کا برا ہو جانا۔ آپ نے چمگادڑ کی کہانی یا بپتا تو سن رکھی ہوگی جو جنگلت کے درندوں اور پرندوں کی لڑائی میں نیوٹرل ہو گیا تھا ’’گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را‘‘ اس کہانی کو دہرانے میں کچھ مضائقہ نہیں خصوصاً ان کے لیے جو کہانی سننے‘ سنانے کے زمانے کے بعد پیدا ہوئے‘ کچھ یوں بیان کیا ہے: کہتے ہیں کہ ایک دن جنگل کے درندوں اور پرندوں میں کسی بات پر ٹھن گئی۔ نوبت تو تکار سے گالم گلوچ اور پھر خونریز جنگ میں بدل گئی۔ چمگادڑ درخت پر بیٹھا دیکھتا رہا‘ درندوں کا پلڑا بھاری تھا وہ جھٹ سے اترا اور درندوں کی صف میں شامل ہوگیا۔ باز‘ عقاب‘ شاہین‘ کوے‘ چیلیں‘ گدھ بھی اونچائی سے اتر کر درندوں کی آنکھوں پر جھپٹے تو ان میں سراسیمگی پھیل گئی‘ چمگادڑ نے بازی پلٹتے دیکھی تو اڑ کر پرندوں کی صف میں گھس گیا‘ تھوڑی دیر بعد چیتے‘ بندر‘ جنگلی بلوں نے اور چند نوجوان سمارٹ شیروں نے لپکتے چیل اور گدھ جھپٹ لیے‘ دو ایک عقاب بھی زد میں آئے تو چمگادڑ پھر سے درندوں کے ساتھ آن ملا‘ الغرض لڑائی چلتی رہی اور چمگادڑ بھاری پلڑے کی طرف جھکتا رہا ہے‘ دیر تک لڑائی کے بعد امن کی علامت فاختہ ان کے بیچ کود پڑی‘ اس نے فریقین کو سمجھایا کہ لڑائی میں کیا رکھا ہے تم دونوں کی دنیائیں الگ‘ ضروریات جدا‘ مفادات مختلف‘ ناحق لڑتے خون بہاتے‘ بیٹھو آپس میں صلح کرو اور جنگل کی فضا میں امن و راحت سے گزران کرو‘ فاختہ کے سمجھانے بجھانے پر دونوں فریق دو لائنوں میں بات چیت کے لیے آمنے سامنے بیٹھ کربات کرنے لگے تو چمگادڑ آ کر پرندوں کی صف میں بیٹھ گیا‘ عقاب نے نفرت سے دیکھا اور اسے دھتکار کر نکال دیا‘ اب وہ اٹھ کر درندوں کی صف میں آیا تو انہوں نے بھی قبول کرنے سے انکار کردیا‘ دونوں فریق چمگادڑ سے بولے ہم سے دور بیٹھو تمہارا فیصلہ بعد میں کریں گے‘ افہام و تفہیم سے فریقین میں معاملات طے ہو گئے۔ صلح نامہ دہرا لیا گیا‘ پھر وہ چمگادڑ کے طرف متوجہ ہوئے، نفرت اور غصے کے ساتھ پرندوں اور جنگلی جانوروں نے اتفاق رائے سے چمگادڑ کو حکم دیا کہ رہتی دنیا تک وہ ہمیں اپنی منحوس شکل نہ دکھائے چنانچہ دن کی روشنی میں اس کے باہر نکلنے پر پابندی لگا دی گئی۔ نفرت اتنی شدید تھی کہ حکم ہوا کہ آج کے بعد وہ اپنی بیٹ یا پاخانہ جو کچھ بھی ہے منہ کے رستے نکالے گا‘ جو ساری مخلوق خدا کے قدرتی طریقے سے جدا ہے۔ یہ تو خیر جنگل کی دنیا ہے جہاں ادارے نہیں ہوتے‘ عدالت ہے نہ فوج‘ پولیس ہے نہ نوکر شاہی وہ اپنے معاملات بس یونہی نمٹا لیتے ہیں‘ دیکھتے ہیں ہمارے درمیان جھولنے والوں کی قسمت میں کیا لکھا ہے؟ ہمارے مولانا اور ان کے چیلوں کے اسٹیبلشمنٹ سے دو معصوم سے مطالبے ہیں کہ عدالتوں کے فیصلے جاری خواہشوں کے مطابق ہو جائیں اور عمران خان کو خاموش کروا دیں، یوں کہ اسے میدان سے باہر کریں گویا دھرتی قلعیکرا دے میں نچاں ساری رات۔ اگرچہ ناچ تو اب بھی رہے ہیں‘ دن اور رات مگر وہ ناچ تگنی کا ناچ ہے جو عمران خان نچوا رہا ہے۔ جناں تیری مرضی نچا بیلیا۔ دھرتی قلعی کروانے کی بھی خوب کہی‘ قلعی کرنے کے لیے برتن گرم کرنا پڑتا ہے اور قلعی بھی۔ گزشتہ دنوں مولانا حضرت نے پریس کانفرنس میں فرمایا تھا کہ وہ عمران خان کے لیے زمین کو اتنا گرم کردیں گے کہ اس کے نازک تلوے جل جائیں گے اور تتلیوں کے پر بھی۔ عام حالت میں دھرتی گرم کرنا مشکل ہے کہ اسے قلعی کیا جا سکے۔ حسن اتفاق سے مولانا عمران خان کے لیے زمین گرم کرنے لگے ہیں‘ اسٹیبلشمنٹ کو اس نادر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جلدی سے گرم دھرتی کو قلعی کروا دینا چاہیے تاکہ ان کے لگائے تازہ ڈرامے یا فلم سے جو کچھ بھی ہے ہیرو اور ہیروئن سبھی فائدہ اٹھا سکیں۔ ساری قوم بجا طور پر آپ سے امید رکھتی ہے کہ اس مسئلے کوبھی اسی طرح راتوں رات خاموشی اور تیزی سے نمٹا دیا جائے گا جس طرح 9 اپریل کی رات عمران خان کا کانٹا نکالا گیا تھا۔