ڈاکٹر شرافت حسین خواتین یونیورسٹی باغ میں ریاضی کے استاد ہیں‘آپ نے قائد اعظم یونیورسٹی سے ایم ایس اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی‘ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سکالرشپ پرریسرچ کے سلسلے میں کینیڈا بھی گئے‘آپ طویل عرصے سے شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں۔وہ دنیا کی بڑی جامعات میں ہونے والی تحقیق و تدریس سے گہری واقفیت رکھتے ہیں‘دنیا بھر میں شائع ہونے والے اہم ریسرچ جنرلزاورریسرچ آرٹیکلز پڑھتے ہیں۔ ان کا میدان توریاضی ہے مگر شعروادب سے لگائو کے باعث اردو کے کئی اہم جریدے بھی پڑھتے ہیں۔اس بار بھی کشمیر سیر کے لیے جانا ایک بہانہ تھا‘اصل مقصد ڈاکٹر صاحب سے ملاقات تھا تاکہ ان سے پوچھا جائے کہ گزشتہ مختصر عرصے میں انھوں نے نیا کیا کیا پڑھا۔میرا یہ کشمیر کاچوتھا سفر تھا لہٰذا میرے لیے یہ سفر اتنا پرکشش نہیں تھا مگر زوجہ محترمہ پہلی دفعہ کشمیر جا رہی تھیں لہٰذا ہم نے ارادہ کیاکہ یہ سفر لوکل ٹرانسپورٹ پر کیا جائے۔ میرا خیال تھا کہ ہمیں یہ سفر بذریعہ ڈیوو براستہ موٹروے کرنا چاہیے مگر ہماری نئی نویلی بیگم نے یک دم یہ خواہش ظاہر کر دی کہ ہمیں لاہور سے راولپنڈی تک بذریعہ ٹرین جانا ہے۔اب مسئلہ یہ تھا کہ ٹرین کی بکنگ نہیں تھی ‘اگر پہلے بکنگ نہ ہو تو ٹرین کا رومانوی سفربھی خاصا دشوار ہو جاتا ہے‘خیر حکم ایسا تھا کہ انکار ممکن نہیں تھا۔ایمرجنسی میں ٹکٹ تو مل گیا مگر اکانومی کلاس کا جنرل ٹکٹ جس پر نہ تو ڈبہ نمبر تھا اور نہ ہی سیٹ نمبر‘درجن سے زائد سیٹیں بدلنے کے بعد پانچ سے چھے گھنٹوں میں لاہور سے راولپنڈی پہنچے۔موسم اس قدر خوش گوار تھا کہ ایک بار تو سوچا ایک آدھ گھنٹہ ریلوے اسٹیشن پر ہی گزارا جائے اوربارش کی پھوار کو انجوائے کیا جائے مگر یہ ممکن نہیں تھا کیوں کہ ہمارا اگلا سفر اس سے کہیں زیادہ طویل اور پریشان کن تھا۔پیر ودھائی سے اگلے سفر کی ٹکٹ بک کروانے کے بعد کسی ڈھابہ ہوٹل کی تلاش میں نکل پڑے تاکہ لاہوری چائے پی جا سکے مگر یہ تلاش کامیاب نہ ہو سکی‘ہمیں چاروناچار اسی چائے پر گزارا کرنا پڑا جو لاری اڈوں سے ملتی ہے۔ پیر ودھائی سے باغ کا لوکل سفر پہلی دفعہ کر رہا تھا‘اس سے قبل تین بار کشمیر کا سفر کیا اور تینوں مرتبہ اپنی گاڑی پر‘اس دفعہ سفر کی انفرادیت یہی تھی کہ ایک تو یہ لوکل تھا اور دوسرا زوجہ ماجدہ ساتھ تھیں لہٰذا یہ سفر پریشان کن تو تھا ہی مگر کسی حد تک یادگار بھی تھا۔راولپنڈی سے باغ کا سفر ساڑھے تین سے چار گھنٹے کا ہے مگر راستہ پرخطر ہونے کے باعث یہ سفر طویل ہو جاتا ہے اوراگر موسم بھی خراب ہو جائے تو یہ سفر پرخطر تو ہوتا ہی ہے‘ساتھ رومانوی بھی ہوجاتا ہے۔موسمی صورت حال کے پیش نظر ہم نے یہ اہم سفر چھے گھنٹے میں کیا‘بار بار ڈرائیور سے یہی پوچھتے رہے کہ بھائی! سفر کتنا رہ گیا ہے اور وہ مسکرا کر یہی کہتا کہ سر! آپ شاید پہلی دفعہ آئے ہیں‘بس انتظار کریں اور انجوائے کریں۔انجوائے تو خیر کیا کرتے‘انتظار ضرور کر رہے تھے۔کشمیر کے لوگ اس سفر کے عادی ہوتے ہیں مگر ہم لوگ جو ایسے سفر سال میں ایک دفعہ کرتے ہیں‘ہم ایسے راستوں میں چکر کھا جاتے ہیں‘ایسے محسوس ہوتا ہے جو چکر لوگوں کو دیے تھے‘اس سفر میں واپس مل رہے ہیں۔اللہ اللہ کر کے یہ سفر سوا چھے گھنٹے میں مکمل ہوا‘رات ساڑھے نو بجے ہم باغ پہنچے جہاں ڈاکٹر شرافت مع فیملی ہمارے منتظر تھے۔شرافت کا گھر باغ سے نو کلومیٹر بلندی پر ہے لہٰذا باغ پہنچ کر ہمیں’ایک اور دریا کا سامنا تھا‘۔خیراگلا سفر مکمل کیا اور رات گئے منزل پر پہنچے جہاں ڈاکٹر شرافت نے خاص کشمیری کھانوں سے ہماری تواضع کی۔کشمیر کی خاص ڈش دال اور ابلے ہوئے چاول ہیں‘ گزشتہ سفر میں میں کئی روز تواس کشمیری ڈش سے لطف اندوز ہوا مگر ایک روز میںنے ہمت کر کے پوچھ ہی لیا کہ بھائی کیا یہاں سب بیمار رہتے ہیں؟اس نے حیرانی سے اس سوال کی وجہ پوچھی تو میں نے عرض کیا کہ بھائی!ہمارے پاکستان میں تو ابلے ہوئے چاول اور دال اس وقت بنتے ہیں جب گھر میں کسی کا پیٹ خراب ہو یا بچے کھچڑی کی فرمائش کریں‘یہاں مسلسل تین روز سے ڈنر میں دال چاول مل رہے ہیں‘اس کی کوئی خاص وجہ؟تب انکشاف ہوا کہ کشمیر میں رات کا کھانا دال چاول کے بغیر نامکمل سمجھا جاتا ہے۔ میرے لیے یہ بات بالکل نئی تھی لہٰذا میں نے ڈاکٹر شرافت سے گزارش کی کہ اگلے جتنے دن بھی یہاں ہوں‘مجھے سالن اور روٹی چاہیے جس پر اس نے زوردار قہقہہ لگایا اور ہمارے تمام مشترکہ دوستوں کو فون کر کے یہ واقعہ سنایا۔اس دفعہ جب زوجہ کے ساتھ اس سفر کا ارادہ کیا تو سب سے پہلے شرافت نے ہم سے یہی وعدہ کیا کہ آپ کو چاولوں کی شکل بھی نہیں دکھائیں گے‘آپ بلا خوف تشریف لائیں۔پھر ایسا ہی ہوا‘ہماری زوجہ نے دو تین بار فرمائش بھی کی کہ کیا چاول مل جائیں گے‘شرافت صاحب کی بیگم گویا ہوئیں کہ اس دفعہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔خیر ایک دن ہم نے ذبردستی بریانی کا آرڈر دیا اور چاولوں کا دیدار نصیب ہوا۔سفر کی تکان اتار کر اگلے روز باغ سے بنجوسہ جھیل(راولا کوٹ)کا رخت سفر باندھا اور علی الصبح راولا کوٹ کے لیے روانہ ہو گئے۔یہ سفر چونکہ لوکل نہیں تھا لہٰذا جگہ جگہ گاڑی رکوا کر فوٹو سیشن ہوا‘ چائے بھی چلتی رہی اور دو گھنٹے بعد ہم راولا کوٹ پہنچے جہاں ڈاکٹر شرافت حسین نے مظفرآبادی کلچوں کا اہتمام کر رکھا تھا۔ہم لاہوری کلچوں کے عادی تھے مگر کشمیری کلچے بالکل مختلف جیسے پاپے(رس)ہوتے ہیں‘ کشمیری چائے کے ساتھ خاص مظفر آبادی کلچو ںکا مزا الگ تھا۔ایک گھنٹہ راولا کوٹ میں قیام کے بعد بنجوسہ کے لیے روانہ ہوئے‘بنجوسہ راولا کوٹ سے بیس کلومیٹر دور پاکستان کی ریاست آزاد کشمیر کے ضلع پونچھ میں واقع ہے‘یہ راولا کوٹ سے بذریعہ سڑک منسلک ہے‘جھیل کے ارد گرد گھنے جنگل اور پہاڑوں نے اسے اور بھی دل کش بنا دیا ہے۔ یہاں سردیوں میں درجہ حرارت منفی پانچ ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے اور دسمبر اور جنوری میں شدید برف باری ہوتی ہے‘گرمیوں میں بھی یہاں کا موسم انتہائی سرد اور خوش گوار ہوتا ہے۔بنجوسہ کے مقام پر سیاحوں کے لیے مختلف سرکاری محکموں کی آرام گاہیں اور نجی مہمان خانے موجود ہیں جن کے بکنگ کے لیے خاصے دشوار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے‘یہاں نجی طعام گاہیں بھی ہیں جو سیاحوں سے بھری رہتی ہیں۔