قومی اسمبلی نے مالی سال 2020-21ء کے لئے وفاقی بجٹ کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے۔ بجٹ کی منظوری عام حالات میں ایک معمول کی سرگرمی ہے جسے ہر سال حکومت اگلے سال کی آمدن اور اخراجات کے میزانیے کے طور پر پیش کرتی ہے۔ بجٹ میں میگا ترقیاتی منصوبوں‘ ٹیکسوں اور عام آدمی کے لئے مراعات کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ اس بار اپوزیشن کو بجٹ منظوری سے قبل بعض امور میں حکومت کے لئے پریشانی پیدا کرنے کا موقع مل گیا۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ ملک بھر میں لاکھوں سرکاری ملازم ہیں۔ ان ملازمین کے خاندان اور زیر کفالت افراد کا شمار کریں تو بجا طور پر تعداد بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ تنخواہ اور پنشن میں اضافہ نہ کرنے سے یہ لوگ حکومت سے ناراض ہیں۔اپوزیشن بڑھتی ہوئی مہنگائی کی من پسند تاویل کر کے ان لوگوں کو حکومت کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کرتی رہی۔یہ صورت حال اس وقت مزید ابتر معلوم ہونے لگی جب حکومت نے کابینہ میں زیر بحث لائے بنا پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ریکارڈ اضافہ کر کے بہت سے حلقوں کو اپنا مخالف بنا لیا۔ حالیہ برس فروری میں ایران سے تفتان کے راستے آنے والے زائرین میں سب سے پہلے کورونا ظاہر ہوا۔ بعدازاں ہوائی اڈوں پر بیرونی ممالک سے آنے والے مقامی افراد کو کورونا لانے کا ذریعہ بتایا گیا۔ اس معاملے پر سندھ اور وفاق کے درمیان جس طرح کشمکش رہی اس سے یہ تاثر مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی کہ وفاقی حکومت وبا کے معاملے میں بروقت دانشمندانہ فیصلے نہیں کر پائی اور پاکستان کے کروڑوں شہریوں کے لئے خطرات پیدا کئے۔ اپوزیشن جماعتوں کی خواہش ہے کہ عمران خان کی حکومت ناکام ہو۔ حکومت کی کمزوریاں‘ حکومتی اراکین کے ایک دوسرے کے خلاف بیانات اور کمزور فیصلے اپوزیشن کو موقع دیتے ہیں کہ وہ حکومت کے بارے میں عوامی رائے کو منفی رخ دے سکے۔ بجٹ سے قبل حکومتی اتحادی گزشتہ سال کی طرح ناراض ہو گئے۔ اس بار بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے پہل کی اور وعدے پورے نہ کرنے کا الزام عاید کر کے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ چند نشستوں کی اکثریت سے قائم حکومت کے لئے یہ اعلان باعث فکر مندی تھا۔ حکومت نے وزیر دفاع پرویز خٹک کو اختر مینگل کو منانے کا ہدف دیا۔ اختر مینگل کو مولانا فضل الرحمن نے ساتھ بٹھاکر حکومت مخالف تحریک پر مشاورت شروع کر دی۔ بجٹ پیش ہونے تک سردار اختر مینگل حکومتی اتحاد میں واپس آنے کو تیار نہ ہوئے۔حکومت کی بڑی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے ساتھ اختلافات بجٹ پر بحث کے دوران زیادہ سنجیدہ صورت میں سامنے آئے۔ اتحادیوں سے اپوزیشن کے رابطوں پر حکومت نے جب اتحادیوں کا اجلاس بلایا تو مسلم لیگ ق نے اپنے مطالبات کی تعمیل تک ایسی کسی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ وفاقی وزیر اور مسلم لیگ ق کے رہنما طارق بشیر چیمہ نے ان ہی اوقات میں اپنے حامیوں کے اعزاز میں عشائیہ رکھ لیا جس دوران وزیر اعظم نے اتحادیوں کو مدعو کر رکھا تھا تاہم طارق بشیر چیمہ نے بجٹ کی منظوری کے لئے اپنی جماعت کے ووٹ حکومت کی حمایت میں دینے کا اعلان کیا۔ یہ صورت حال اپوزیشن کے لئے ایک غلط فہمی کا باعث بنی۔ تسلسل کے ساتھ اپوزیشن رہنمائوں اور ان کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر یہ کہنا شروع کر دیا کہ پی ٹی آئی حکومت بجٹ منظور نہ کروا سکے گی۔ یہ بھی یقین کے ساتھ کہا گیا کہ حکومت کو گھر بھیجنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں ایک دم ساڑھے پچیس روپے اضافے نے عوام کو مضطرب کر دیا۔ عوامی سطح پر حکومتی فیصلے پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ ان ناموافق حالات میں حکومت نے پہلے سے زیادہ اکثریتی ووٹ لے کر ایوان سے بجٹ منظور کروا لیا۔جس پر اپوزیشن جماعتیں حیران ہیں اور کسی حد تک طیش میں بھی۔ گزشتہ حکومتوں کی طرح موجودہ دور میں جو امر تشویش میں مبتلا کرتا ہے وہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے پارلیمنٹ کا پلیٹ فارم استعمال کرنے کا طریقہ ہے۔ حالیہ بجٹ اجلاس کے دوران اراکین کی اکثریت اپنے مخالفین پر ذاتی نوعیت کا طنز اور حملے کرتی رہی۔ اراکین کی بڑی اکثریت خاموش تماشائی بنی رہی۔ جن اراکین کو اظہار خیال کا موقع ملا ان کی شعلہ بیانی موضوع سے مطابقت نہ رکھ سکی۔ بجٹ حکومت پیش کرتی ہے لیکن اسے بہتر بنانے کی تجاویز اپوزیشن دیتی رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر ساری توجہ حکومت کو تبدیل کرنے پر رہی۔ کسی نے بجٹ کو سنجیدہ معاملہ نہ سمجھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت آسانی سے بجٹ منظور کروا کر اپوزیشن کے دبائو سے نکلنے میں کامیاب ہو گئی۔ ہماری سیاسی جماعتیں اگر ملک میں جمہوریت کا فروغ چاہتی ہیں تو انہیں جمہوری روایات کی پاسداری کرنا ہو گی۔ کس موقع پر کیا کہنا ہے اور سیاسی و ذاتی معاملات کو کسی طرح الگ الگ رکھنا ہے اس کا ادراک انہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان غیر معمولی حالات سے گزر رہا ہے۔ہمیں کشمیر پر عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنے سے پہلے خود کو متحد ظاہر کرنا ہے۔ اپنے قومی مسائل کے حل کے لئے پارلیمنٹ میں سیاستدانوں کو ایسا شائستہ ‘ دانشمندانہ اور موثر کردار ادا کرنا ہو گا کہ عشروں سے پڑی گرہیں کھل سکیں۔ ماضی میں حکومتیں گرانے کا نتیجہ عدم استحکام کی صورت میں برآمد ہوتا رہا ہے۔ ایسا برا تجربہ دہرانے میں کسی کا بھلا نہیں ہو گا۔