اسلام آباد سے روزنامہ 92 نیوزکی رپورٹ کے مطابق توانائی سیکٹر میں 4 کھرب 30 ارب روپے کے نقصان کا انکشاف ہوا، بجلی چوری کی وجہ سے خزانے کو 78 ارب روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑا جبکہ سب سے زیادہ 36 ارب 64 کروڑ روپے کی بجلی چوری خیبر پختون خوا میں ہوئی ہے۔ متذکرہ رپورٹ کے انکشافات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قومی خزانے خصوصاً توانائی کے شعبہ کے ساتھ کس قدر کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں حالانکہ توانائی کا شعبہ سب سے زیادہ توجہ کا مستحق ہے۔ اگر ابھی سے اس طرف توجہ نہ کی گئی تو آئندہ برسوں میں توانائی کے بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اپنی حکومت کے قیام کے اوائل میں اس طرف اشارہ کر چکے ہیں اوروزارت توانائی کو بجلی چوری رکوانے کے لئے متعدد بار ہدایات بھی جاری کر چکے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے نوبت باایں جا رسید کہ خزانہ کو 430 ارب کا نقصان برداشت کرنا پڑا ۔ طویلے کی بلا بندرکے سر کے مصداق بالآخر سارا بوجھ غریب عوام کوبجلی کے بھاری بلوں کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے جو کسی طرح قرین انصاف نہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر میں ہونے والی بجلی چوری اور لائن لاسز کی مستقل روک تھام کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں تاکہ عوام کو ناکردہ گناہوں کا بوجھ نہ اٹھانا پڑے۔