بھارت میں، جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے کا دعویدار ہے، اس وقت سنسر شپ عروج پر ہے اور وہاں آن لائن لیکچروں پر بھی پابندی لگائی جا رہی ہے۔ حال ہی میں عالمی شہرت یافتہ امریکی دانشور نوم چومسکی اور بھارتی دانشور جے پرشاد کے آن لائن لیکچروںپر بھی روک لگا دی گئی ہے۔ دونوں دانشوروں نے 20نومبر کو ممبئی لٹریچر فیسٹیول 2020ء میں شرکت کرنا تھی لیکن ا ن کے ڈائیلاگ پر پابندی لگا کر بھارت نے ثابت کر دیا کہ وہ اب آزادی تحریر و تقریر کے حق کو بھی اپنے جمہوریت کش اور ظالمانہ قوانین کی زدمیں لے رہا ہے۔ نوم چومسکی اور جے پرشاد کی جانب سے اس سلسلہ میں ایک مشترکہ بیان بھی جاری کیا گیا ہے کہ جس میں دونوں دانشوروں نے مودی حکومت کے شہریت ترمیمی ایکٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے کروڑوں غریب بھارتی شہریوںکی آواز دبانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔مودی حکومت اپنے ظالمانہ قوانین کے ذریعے اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور جو بھی اس کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اس پر پابندی لگا دیتی ہے ، اس لئے نوم چومسکی جیسے دانشوروں کے ڈایئلاگ پر بھی پابندی لگا ئی جا رہی ہے جو پوری دنیا میں اپنی غیر جانبداری کے باعث جانے جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی ادارے بھارت کے اس ظالمانہ اور غیر جمہوری رویے کے خلاف آواز اٹھائیں تاکہ بھارت میں اقلیتوں کو درپیش مسائل کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جاسکے۔