پہلے دو اشعار: ہن کیہ خوف بلاواں دا سارا شہر خداواں دا ابا میرے دیس دی خیر سر تے شور اے کانواں دا منیر نیازی بھی کیا جملہ کہتے تھے کہ وہ جملہ شہر کے ادبی حلقوں میں پھیل جاتا تھا۔ ایک دفعہ کہنے لگے بعض لوگ اتنا بولتے ہیں کہ بول بول کر ان کے منہ بڑے اور سر چھوٹے ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک موقع پر فرمایا، بعض آدمی صرف منہ ہی کھولتے ہیں۔ لفظ خودبخود ان کے منہ سے برآمد ہونے لگتے ہیں۔ نہ جانے نیازی صاحب کے یہ دونوں جملے مجھے رانا مشہود کے اس بیان پر کہ ’’اسٹیبلشمنٹ سے معاملات طے پا گئے، دو ماہ میں پنجاب حکومت ہماری ہوسکتی ہے۔‘‘ یاد آئے۔ اب اس بیان پر جہاں پاک فوج کی طرف سے زبردست ردعمل آیا ہے تو ایک بحث چل نکلی ہے کہ کیا واقعتاً ایسا ہی ہوتا ہے، یہی بحث غالباً ن لیگ کا مقصد تھی جو بھی ہے یہ بیان واقعتاً غیرذمہ دارانہ ہی نہیں ملکی استحکام کے خلاف ہے۔ سب سمجھتے ہیں کہ یہ بیان رانا مشہود کے قد سے بڑا ہے اور انہوں نے صرف منہ ہی کھولا ہے۔ بیان خود بخود برآمد ہوا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ ان کے اندر ایسے ہی فیڈ تھا جیسے ٹیپ ریکارڈر میں ہوتا ہے یا وہ کھلونا جس میں چابی بھری ہوتی ہے اور پھر وہ بولتا ہے اور تالیاں بجاتا ہے اور دیکھنے والے اس سے محظوظ ہوتے ہیں۔ دیکھا جائے تو سازشیں اور پے در پے سازشیں ن لیگ کا وطیرہ ہے۔ ان کا پراپیگنڈا سیل بہت مضبوط ہے اور سوشل میڈیا پر وہ مسلسل اسٹیبلشمنٹ کے لتے لیتا رہتا ہے لیکن اب کے تو حد ہی ہوگئی ہے کہ انہوں نے اپنا پالیسی بیان سرعام دے دیا جس کا مقصد فوج کو مشکوک کرنا نہیں بلکہ ایکسپوز کرنے کی سازش ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ شہبازشریف اس پر برہم ہیں۔ اگر وہ سچ مچ برہم ہیں تو پھر ایسے لگتا ہے کہ متوازی ایک اور کھیل چل رہا ہے کہ ’’چلتی ہے زیردشت بھی پانی کی ایک لہر۔‘‘ فواد چودھری کی طرف سے دلچسپ محاورہ آیا کہ ’’ذات دی کوڑھ کرلی تے شہتیراں نوں جپھے۔‘‘ ویسے اس ردعمل کی ضرورت نہیں تھی۔ ویسے یہ محاورہ میری سمجھ میں کبھی نہیں آیا کہ کوڑھ کرلی بیچاری تو شہتیر کا سہارا لے کر چلتی ہے۔ اس کی بقا شہتیر کو جپھا ڈالنے ہی میں ہے۔ یہ کوڑھ کرلیاں بدلتی رہتی ہیں، شہتیر تو اپنی جگہ موجود رہتا ہے۔ یو تو ہمارا خیال ہے کہ شاید وہ جپھا ڈال کر شہتیر کو ہلا دے گی یا گرا دے گی۔ اگر وہ ایسی کوشش کرے گی تو خود ہی گر جائیگی۔ رانا صاحب بہرحال ہمارے وزیر تعلیم رہے ہیں اور وہ کرپشن اور رشوت کے الزامات کے باوجود اپنے عہدے پر رہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ میاں برادران کے نہایت قابل اعتماد ساتھی ہیں۔ پہلے بھی بداحتیاطی کے باعث ان کا سکینڈل بنا تھا اور اب کے بھی انہوں نے بے خیالی میں زیادہ خود اعتمادی کے باعث وہ اندر کی بات زبان پر لے آئے مگر سیانے تو اسے ڈیل کی طلب بھی قرار دے رہے ہیں۔ آپ اس بیان کو Feeler بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ تو آگ لگانے والا بیان ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نوازشریف اور مریم کے خاموش رہنے پر کسی کو تو آخر بولنا تھا: جب پھول چپ ہوئے تو ثمر بولنے لگے پھر اس کے بعد سارے شجر بولنے لگے ویسے ایک بات غور کرنے والی ہے کہ اگر پنجاب کا وزیراعلیٰ ٹھیک ٹھاک اور دب دبے والا ہوتا تو رانا مشہود کے بیان کے کچھ معنی نہ ہوتے۔ سپریم کورٹ کی گائیڈ لائن بہرحال قابل عمل ہے۔ لوگ چیف جسٹس کی پیش رفت سے بہت خوش ہیں کہ پہلی مرتبہ قبضہ مافیا کو کسی نے ہاتھ ڈالا ہے یہ وہ مقام ہے جہاں ہمارے چوہدری سرور نے ن لیگ کے دور میں گورنر ہوتے ہوئے بھی ہاتھ کھڑے کردیئے تھے۔ اب ثاقب نثار صاحب نے انہی بدمعاشوں کے ہاتھ کھڑے کروا دیئے ہیں۔ اگر حکومت مخلص ہو تو سٹیٹ کی طاقت کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔ پیچھے تو معاملہ ہی کچھ اور تھا، وہی جو ہمارے دوست ازہر درانی نے کہا تھا: شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی اب ایک دلیر آدمی آیا تو اس نے منشا بم جیسے قبضہ مافیا کے سرغنہ کی ہوا نکال کے رکھ دی۔ اربوں روپے کی زمین واگزار کروالی اور کرائی جا رہی ہے۔ یہ بدمعاش اپنے پشت پناہوں کے باعث ہی شیر ہوتے ہیں۔ کوئی پیچھے سے ہاتھ کھینچ لے تو یہ ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ اپنے علاقوں میں خدا بنے ہوئے یہ رسہ گیر عدالت میں آ کر زاروقطار روتے ہیں اور ہاتھ باندھتے ہیں۔ انہیں اپنے علاقے میں کسی غریب کے بندھے ہاتھوں پر کبھی ترس نہیں آتا۔ ان سانپوں کے سر کچلنے بہت ضروری ہیں۔ منشا بم کی مارکیٹ مسمار کردی گئی ہے۔ اس بم کو بے اثر کرنا ضروری تھا۔ ایسے اور بھی کئی بم ہیں جن کا فیوز اڑانا ضروری ہے۔ فیصلوں میں یہ دلیری ضروری ہے۔ آپ دیکھتے نہیں کہ چیف جسٹس کے کالا باغ ڈیم والے بیان پر سرائیکی علاقوں سے اچھا رسپانس شروع ہو گیا ہے۔ قومی مفاد میں ہر اقدام درست ہوتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ سب کو مطمئن کرنا چاہیے مگر یہ کیا بات ہوئی کہ اپنے ملک کو دشت بنتے ہوئے دیکھتے رہیں اور کالا باغ ڈیم نہ بنائیں۔ چیف جسٹس نے درست کہا کہ بدمعاشوں کے لیے اس ملک میں جگہ نہیں رہے گی۔ ایک مرتبہ جنرل موسیٰ نے بھی یہ ہمت دکھائی تھی تو بدمعاشوں کے لیے صرف جیل خانہ جات میں جگہ رہ گئی تھی۔ بدمعاش سفارشیں کرواتے جیلوں میں جا بیٹھے۔ لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہی امن اور تحفظ ہے۔ یہاں دلچسپ یہ ہوا کہ سب سے پہلے پی ٹی آئی کے بدمعاش ہی ہاتھ لگے ہیں لیکن انہیں پی ٹی آئی نے بدمعاش نہیں بنایا تھا، وہ جہیز ہی میں ایسے آئے تھے۔ کچھ باتیں مضحکہ خیز بھی ہورہی ہیں، ان پر ہر صورت قابو پانا چاہیے۔ مثلاً یہ جو موٹرسائیکل کا دو ہزار یا 2500 کا چالان ہورہا ہے اور جس طریقے سے لوگ وارڈنز کے ساتھ الجھ رہے ہیں۔ نہایت ناخوشگوار واقعات ہورہے ہیں۔ بعض بے چاروں کے پاس تو پٹرول کے پیسے نہیں، دو ہزار کہاں سے دیں گے۔ اس کے علاوہ ایک چنگ چی والے کا چالان سامنے آیا کہ اس نے ہیلمٹ نہیں لینا تھا۔ اب چنگ چی پر ہیلمٹ چہ معنی دارد۔ کل کلاں آپ گاڑی والے سے ہیلمٹ کا مطالبہ کریں گے۔ حکومت کو سوچنا ہوگا کہ لوگوں کو آسودگی اور ریلیف دیں۔ ان کی حیثیت کے مطابق ہی جرمانے وغیرہ لیں۔ ایک بکری یا بھیڑ سے گائے بھینس جتنا دودھ نہیں لیا جاسکتا۔ آخری بات یہ کہ 92 نیوز کے چیئرمین میاں حنیف نے ڈیمز فنڈ میں ایک کروڑ روپے عطیہ دیا۔ وہ پہلے بھی خیر کے کاموں میں دل کھو ل کر حصہ لیتے ہیں۔ یہ توفیق کی بات ہے۔ اس حوالے سے تو مسابقت کا رویہ رکھنا چاہیے۔ ایک شعر وقت روکے تو میرے ہاتھوں پر اپنے بجھتے چراغ لا رکھنا