پاکستان میں گاہے گاہے صدارتی نظام کا ذکر سننے میں آتا رہا ہے لیکن اب یہ ذکر قدرے تواتر سے ہو رہا ہے۔ پاکستان میں اس وقت جو نظام نافذ ہے وہ برٹش پارلیمنٹری سسٹم کہلاتا ہے۔ اس کے برعکس امریکہ اور فرانس وغیرہ میں جو نظام ہے اسے صدارتی نظام کہتے ہیں۔ اب یہ سوال بڑی اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ کیوں نہ موجودہ نظام کو ترک کر کے صدارتی نظام اپنا لیا جائے۔ موجودہ حالات میں یہ کام ممکن بھی ہے یا نہیں کس طریق کار پر عمل کر کے ایسا ہو سکتا ہے۔ یہ بعد میں سوچنے والے مسائل ہیں۔ فی الحال ہم یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ برطانوی پارلیمانی نظام ہے کیا اور پاکستانی عوام اس نظام سے اتنے نالاں کیوں ہیں۔ اس سلسلے میں ہم بانی پاکستان حضرت قائد اعظم سے رہنمائی لیتے ہیں اور پتہ کرتے ہیں کہ اس نظام کے بارے میں ان کی کیا رائے تھی اور وہ پاکستان میں کس قسم کا نظام چاہتے تھے۔ میرے سامنے ایک فوٹو سٹیٹ کاغذ پڑا ہے۔ یہ کاغذ میرے پاس ہی نہیں بلکہ بے شمار پاکستانیوں کے پاس ایک نہایت اہم دستاویز کی شکل میں موجود ہے۔اس کاغذ پر گیارہ جولائی 1947ء کی تاریخ درج ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ قائد اعظم مذکورہ تاریخ کو گھر میں بیٹھے اس ملک کے مستقبل کے آئین کے بارے میں سوچ رہے تھے جو انہی کی جدوجہد کے نتیجے میں معرض وجود میں آ رہا تھا۔ قیام پاکستان کے باقاعدہ اعلان میں تقریبا ایک ماہ باقی تھا اس نوزائیدہ مملکت کے مستقبل کے آئین کے بارے میں سوچنا ان کے لئے ایک قدرتی بات تھی۔ دوسرا بڑا مسئلہ جو ان کے خیالوں کا مرکز تھا وہ پاکستان اور ہندوستان کے آئندہ کے تعلقات کے بارے میں تھا۔ ان کے سامنے رائٹنگ پیڈا پڑا تھا۔ جس پر انہوں نے Notesکی شکل میں جنہیں انگریزی میں Jottingsبھی کہتے ہیں۔ چند فقرات لکھے۔ یہ کاغذ ان کے انتقال کے بعد کسی کے ہاتھ لگ گیا اور پھر دھڑا دھڑ اس قیمتی دستاویز کی فوٹو کاپیاں تمام ملک میں پھیل گئیں۔ اس کی بہت سی فوٹو کاپیاں میرے پاس بھی ہیں جو میں اپنے طلباء میں تقسیم کرتا رہتا ہوں۔ اگر میرے قارئین میں سے کوئی صاحب اس دستاویز کو لینا چاہیں تو 03004600753پر فون کر کے مجھ سے لے سکتے ہیں۔انہوں نے یہ فقرات لکھ کر آخر میں اپنے دستخط بھی ثبت کئے۔انگریزی میں لکھے ہوئے ان فقرات کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔ (1) کانگریس نے قیام پاکستان کو مان تو لیا ہے لیکن دل سے تسلیم نہیں کیا۔ ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہے گی کہ پاکستان کو ختم کر کے ہندوستان میں ضم کر دیا جائے۔ وہ اپنے اس مشن سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے اور ہمیشہ پاکستان کی شدید دشمنی پر کاربند رہیں گے۔ 2۔ دنیا میں زیادہ تر دو نظامہائے حکومت رائج ہیں۔ برطانوی پارلیمانی نظام اور صدارتی نظام۔ 3۔ برطانوی پارلیمانی نظام سوائے برطانیہ کے کہیں بھی کامیاب نہیں ہوا۔ یہ نظام پاکستان کے لئے غیر موزوں ہے۔ 4۔ پاکستان کے لئے صدارتی نظام ہی بہتر رہے گا۔ قارئین کرام:میں نے قائد کی تحریر کا ترجمہ کرتے وقت اپنی طرف سے ایک لفظ کی کمی بیشی نہیں کی۔ میں کوشش کروں گا کہ قائد کی تحریر کا عکس 92نیوز میں بھی چھپ جائے تاکہ کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہے۔اس تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ اگر ان کی عمر وفا کرتی اور انہیں قدرت کی طرف سے مزید آٹھ دس سال مل جاتے تو وہ آئین کے ذریعے صدارتی نظام ہی نافذ کرتے۔1956ء تک تو ملک انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت ‘تخت برطانیہ کی سرپرستی میں چلتا رہا۔ مستقبل کے طرز حکومت کا فیصلہ تو حتمی آئین بننے کے بعد ہونا تھا۔1956ء کا آئین وضع کرتے وقت ہمارے آئین سازوں کے ذہن میں برطانوی پارلیمانی نظام تھا اور انہوں نے اسی نظام کو آئین کا حصہ بنایا۔ اس وقت کسی طرف سے یہ آواز نہ اٹھی کہ برطانوی پارلیمانی نظام ہمارے مخصوص حالات کے پیش نظر قطعی غیر موزوں ہے۔ اس مسئلے پر میں علیحدہ کالم لکھوں گا(انشاء اللہ)۔ ان غنچوں کی مانند جو بن کھلے مر جھا جاتے ہیں‘1956ء کا آئین منسوخ کر دیا گیا اور ہم ایک بار پھر لڈّو کے سکوئیر ون میں آ گئے۔ ایوب خان کا آئین سرے سے آئین تھا ہی نہیں۔اسے زیادہ سے زیادہ ایک آمر کا ایڈونچر کہہ سکتے ہیں۔اب آتے ہیں پاکستان کے موجودہ آئین کی طرف جس میں اتنی ترامیم ہو چکی ہیں کہ یہ اپنی اصل سے کافی دُور ہٹ چکا ہے لیکن جہاں تک طرز حکومت کا تعلق ہے یہ آئین بھی برطانوی پارلیمانی نظام کا علمبردار ہے۔ یہاں ایک دلچسپ سوال پیدا ہوتا ہے کیا ایسا ممکن تھا کہ بھٹو صاحب 1973ء کے آئین کے تحت صدارتی نظام متعارف کروا دیتے۔ میرا جواب یہ ہے کہ ایسا ممکن تھا نہ ایسا ہوا۔ بھٹو صاحب فیوڈل طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی عوامل تھے جن پر سیر حاصل بحث ہم کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔ لیکن یہ طے ہے کہ وہ طبقات جو ہر جائز و ناجائز طریقے سے عوام سے ووٹ بٹور کر اسے اقتدار کی سیڑھی بنا کر پاور کوریڈور میں جا پہنچتے ہیں کبھی موجودہ نظام سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ ان استحصالی طبقوں کی بقا اسی نظام میں ہے لہٰذا میں یہ تصور نہیں کر سکتا کہ کبھی قومی اسمبلی کے ذریعے نظام کی تبدیلی عمل میں آ سکتی ہے۔ ووٹ کو عزت دو کے فلسفے کی وجہ بھی یہی ہے کہ طبقہ امراء کے لئے جاہل‘ غریب‘ بے شعور اور ذہنی طور پر غلام عوام سے ووٹ لینا بہت آسان اور پھر اس ووٹ کے ذریعے ملک کے سفید سیاہ کا مالک بن کر اپنی من مانی کرنا بہت آسان ہے۔ آج کل چند حضرات جن میں چند صحافی بھی شامل ہیں۔ صدارتی نظام کی متوقع آمد کا ذکر یوں کر رہے ہیں گویا کسی بھی بڑے خطرے کی آمد کی اطلاع دے رہے ہوں۔ بالخصوص وہ سیاستدان جنہیں صدارتی نظام میں اپنی موت نظر آ رہی ہے۔ صدارتی نظام کا ذکر تک سننا پسند نہیں کرتے اگر حکومت کسی غیر منتخب فرد کی خدمات سے استفادہ کرنے کی کوشش کرے تو یہ لوگ اس غیر منتخب فرد کا حوالہ یوں دیتے ہیں جیسے وہ کوئی اچھوت ہو۔ وہ ہر لمحہ عوام کو یہ باور کرانے میں لگے رہتے ہیں کہ منتخب افراد ہی اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں۔ صرف وہی عوام کی خدمت کرنے کی اہلیت اور جذبہ رکھتے ہیں۔ غیر منتخب حضرات گھس بیٹھئے ہیں ان کا حکومتی معاملات سے دور کا تعلق بھی نہیں ہونا چاہیے۔ وغیرہ وغیرہ ۔گزشتہ چالیس سال سے نافذ اس پارلیمانی نظام نے قائد اعظم کے خدشات کو بالکل صحیح ثابت کر دیا ہے۔ اس نظام کے تحت کوئی ایماندار حکمران آ ہی نہیں سکتا اور اگر کبھی یہ انہونی ہو گئی تو اس کا حشر وہی ہو گا جو آج کل عمران خان کا کیا جا رہا ہے۔آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ اس نظام کے تحت آنے والے تمام وزرائے اعظم کرپشن میں ملوث رہے۔ بھٹو صاحب کے دور میں پیپلز پارٹی والوں نے کرپشن کی داستانیں رقم کیں۔ محترمہ بے نظیر کو ’’موسٹ کرپٹ لیڈی آف ایشیا‘‘ کا خطاب ملا۔ اگر محترمہ کو بری الذمہ قرار دے دیں تب بھی زرداری کو کرپشن کا موقع محترمہ ہی کی وجہ سے ملا۔ محترمہ کے بعد نواز شریف نے کرپشن کے فن کو اتنی بلندیوں تک پہنچا دیا کہ وہاں تک انسانی نظر کی پہنچ ناممکن ہے۔ پرویز مشرف ‘ گیلانی‘ عباسی‘ کون ہے جس نے بہتی گنگا میں ہاتھ ہی نہیں دھوئے بلکہ پورا اشنان کیا اور ایک بار نہیں بلکہ بڑی باقاعدگی سے روزانہ کیا۔ تو صاحبو! اگر قوم چاہتی ہے کہ موجودہ نظام کی پیٹھ پر لات مار کر اسے رخصت کیا جائے تو کیا برائی ہے۔ اپوزیشن کے ارکان عمران خان کو سلیکٹڈ وزیر اعظم کہتے ہیں۔ گویا یہ بے وقوف اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں کہ موجودہ نظام کے تحت کوئی ایماندار وزیر اعظم Electنہیں ہو سکتا۔