بھارت میںمسلمانوں کو ریاستی حکمت عملی کے تحت دوسرے درجے کاشہری تصور کرتے ہوئے ، بالعموم ، ان کے مفادات کو پامال کیا گیا ہے۔ کانگریس اور بی جے پی کے ادوار میں طریقہ واردات کا فرق ضرور ہوتا ہے لیکن واردات ایک ہی ہے جو بھارتی معاشرے میں مختلف شکلوں میں ظہور کرتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اس رویے کی وجہ کیا ہے؟ ہمارے ہاں اس سوال کے بظاہر د وجوابات دیے جاتے ہیں ۔ اول، اسے بھارت میں انتخابات سے جوڑا جاتا ہے کہ انتخابات کے قریب آتے ہی مسلم دشمنی کے رویے بے لگام ہو جاتے ہیں جو انتخابات کے بعد تھم جاتے ہیں۔ دوم ، اسے قیام پاکستان سے جوڑا جاتا ہے کہ بھارت کی اس تقسیم کے بعد وہاں مسلم دشمنی پیدا ہوئی ہے اور امام الہند ( بقلم خود) نے تو کہا تھا کہ ایسا نہ کریں ورنہ پیچھے بچ جانے مسلمان ظلم کا شکار رہیں گے۔ یہ دونوں جواب درست نہیں ہیں۔ حقیقت اس سے یکسر مختلف ہے۔ انتخابات کے آتے ہی ، داخلی اور خارجی سطح پر جو ہیجان پیدا کیا جاتا ہے یہ کوئی انتخابی نفسیات نہیں۔ یہ معاشرے میں موجود وہ عمومی مسلم دشمنی ہے جسے انتخابی مرحلے میں ایکسپلائٹ کیا جاتا ہے۔ کبھی مقامی مسلمانوں کے خلاف کبھی پاکستان کے خلاف۔ یعنی سمجھنے کی بات یہ ہے کہ انتخابات میں جو بھی نعرہ لگتا ہے وہ مقبول نعرہ ہوتا ہے جسے عوام میں پزیرائی ہوتی ہے اور اس کی بنیاد پر ووٹ لینا مقصود ہوتا ہے۔ مسلم دشمنی یا پاکستان دشمنی اگر بھارت کے انتخابی بیانیے کا حصہ بنتی ہے تو گویا خرابی کا تعلق صرف انتخابی مہم سے نہیں ، یہ بہت گہری ہے۔سوال یہ ہے کہ وہ وجہ کیا ہے؟ کیا اس کی وجہ قیام پاکستان ہے؟ ہر گز نہیں۔ قیام پاکستان تو مسلمانوں کے لیے ایک ڈھال بن گیا ورنہ سارے برصغیر میں مسلمانوں کے ساتھ وہی ہوتا جو سردار پٹیل نے اول ابولکلام ا ٓزاد کے ساتھ اور پھر سنگھ پریوار نے مسلمانوں کے ساتھ کیا۔قائد اعظم ہندو اشرافیہ کے شائونزم کے اس روپ کو جان چکے تھے ، انہوں نے الگ ملک کی جدوجہد کی۔ جو اس روپ کو نہ سمجھ سکے وہ آج تک اپنی آگ میں جل رہے ہیں اور خلط مبحث کا شکار ہیں۔ تو پھر اصل وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں ماضی میں جانا ہو گا جب ہندوستان میں مغلوں کا اقتدار ختم ہو رہا تھا اور انگریز ی راج آ رہا تھا ، اس دور میں ہندونفسیات کا مطالعہ ہمیں معاملہ فہمی میں مدد دے سکتا ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب یہاں قدم جمائے تو ہندوئوں نے انہیں عملََا خوش آمدید کہا ۔ تعاون فراہم کیا اور ساتھ دیا۔ اس وقت نہ الیکشن تھے نہ ابھی پاکستان بنا تھا۔ اس رویے کی وجہ کیا تھی۔ اس کا جواب بہت سادہ ہے: مسلمانوں سے نفرت۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے پہلے مرحلے میں ساحلی علاقوں میں بمبئی مدراس اور کلکتہ پر قدم جمائے۔ تفصیل پڑھیں تو آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ کس طرح ہندو اشرافیہ نے مسلمانوں سے غداری کر کے انگریز کا ساتھ دیا۔ باوجود اس کے کہ یہ ہندو اشرافیہ مسلمانوں کی حکومتوں میں قابل قدر مناصب پر فائز تھی، یہ غدار بنی۔ اس کی وجہ مسلمان دشمنی کے سوا کچھ نہیں۔ آج فلم انڈسٹری اور پروپیگنڈے کے زور پر باور کرایا جاتا ہے کہ ہندوئوں نے انگریزکو یہاں سے نکالنے کے بڑی جدو جہد کی۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ ہندو انگریزی قبضے میں سہولت کار تھے۔ وہ مسلمانوں سے صدیوں کے اقتدار کے بدلے چکانا چاہتے تھے اور ان کے سر پر انتقام سوار تھا۔ پرماننٹ لینڈ سیٹلمنٹ ایکٹ کے تحت جب انگریز نے یہاں مسلمان اشرافیہ کو مالی طور پر تباہ کرنے کا آغاز کیا تو اس کھیل میں ہندو انگریز کا سہولت کار بنا۔ چنانچہ ’ گماشتہـ ‘ کے نام سے ایک نیا عہدہ تخلیق کیا گیا جو ٹیکسوں کے نام پر مقامی مسلمان زمین داروں کو لوٹنے لگا۔ اس عہدے پر ہندو فائز ہونے لگے ۔ انگریز کا پہلا ’ گماشتہ ‘ ہونے کا اعزاز ہندو اہلکاروں کو ملا۔ ان گماشتوں نے مسلمانوں کو یوں لوٹا کہ لارڈ کلائیو جیسے آدمی بھی دہائی دینے لگا حالانکہ کلائیو نے خود لوٹ مار میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں سے زمینیں چھین کر انگریز نے دوسرے مرحلے پر ان ہیـ ’ ـ گماشتوں‘ کو زمین دار کا درجہ دے دیا۔ یہ گماشتے اور زمین دار بعد میں انگریز کے دست و بازو بن کر عشروں حکومت کرتے رہے۔ ( نو آبادیاتی مسلمان جنٹلمین وفاداروں کی نسل بعد میں وجود میں آئی جسے مناصب اور جاگیریں عطا کی گئیں) انگریز کا آنا ہندوئوں کے لیے محض ایک نیا آقا کا آ جانا تھا ۔ جب کہ مسلمانوں کے لیے یہ اقتدار سے محرومی کا صدمہ تھا۔ انگریز اس بات کو سمجھتے تھے ا ور درجنووں کتابوں میں انگریز لکھاریوں نے یہ لکھ رکھا ہے کہ اس نکتے کو انگریز نے بطور پالیسی اختیار کیا کہ ہندوئوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جائے۔ انگریز کو معلوم تھا کہ مسلمان اقتدار سے محرومی پر برہم ہیں اور کسی بھی وقت چیلنج بن سکتا ہے لیکن ہندو کا ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔ وہ فطری حلیف ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کو اس فطری حلیف کے ہاتھوں باقاعدہ ذلیل کرایا گیا۔انگریز مصنفین لے لکھ رکھا ہے کہ 1857 کی جنگ مسلمانوں نے شروع کی تھی اور جو چند ہندو راجے اس میں شامل تھے ان کی اپنی الگ سے وجوہات تھیں جیسے جھانسی کی رانی ، ڈلہوزی ڈاکٹرین کی ڈسی ہوئی تھی اور جانشینی کے مسئلے پر برہم تھی۔بنیادی جھگڑا صرف مسلمانوں کا تھا ۔ چنانچہ جنگ آزادی کے بعد بے رحمی سے صرف مسلمان ہی کچلے گئے۔ سندھ میں مسلم حکمرانوں کو انگریز کے ہاتھوں شکست ہوئی تو انگریز نے بیانیہ دیا کہ ہم نے محمد بن قاسم کا بدلہ لے لیا ہے۔ یہ بیانیہ کس لیے تھا؟ یہ ہندو کے لیے تھا۔ کابل سے ایک قدیم دروازہ خرید کے ہندوستان لایا گیا اور کہا گیا کہ سومنات کا وہ دروازہ ہے جو محمود غزنوی ساتھ لے گیا تھا۔ یوں گویا یہ تاثر مستحکم کیا گیا کہ مسلمانوں کے اقتدار کے خاتمے اور انگریز کی آمد کی شکل میں یہ جو ہوا ہے اسے ہندو اپنی ہی کامیابی سمجھیں ۔ جب 1947میں انگریز یہاں سے نکل رہا تھا تو صدیوں کے بعد یہ پہلا مرحلہ تھا کہ ہندو کو اقتدار ملتا نظر آ رہا تھا۔ عددی برتری کی بنیاد پر اس نے مسلمانوں سے اگلے پچھلے حساب پورے کر لینے تھے۔ یہی ہندو رویہ دھیرے دھیرے سامنے آیا تو قائد اعظم جیسے آدمی کو جو ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کہلاتے تھے ، مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا مطالبہ کرنا پڑا۔ مسلمان سے ہندو شائوونزم کی نفرت کی نفرت کی وجوہات کی جڑیں انتخابات یا 1947میں نہیں ، صدیوں میں ہیں۔ جنہیں تاریخ سے کوئی شغف نہیں ، وہ اپنی جہالت ا ور سادگی میں خلط مبحث کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ورنہ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ جمعیت علمائے ہند اپنے ابولکلام آزاد کے بھارت میں بے بس اور فرمانبردار کی حیثیت سے جی رہی ہے مگر جمعیت علمائے اسلام پاکستان ، جناح کے پاکستان میںآزادانہ طور پر گرج برس رہی ہوتی ہے۔