28جولائی 2017ء کو میاں نواز شریف نااہل قرار پائے تھے اب فاضل احتساب عدالت نے اپنے فیصلے میں ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کا جواب دے دیا ہے یہ 174صفحات پر مشتمل فیصلہ ہے جو کہ فاضل احتساب عدالت نے دیا ہے قومی احتساب آرڈیننس کی دفعات کے تحت میاں نواز شریف‘ مریم نواز اور (ر) کیپٹن صفدر کو مجرم قرار دیا گیا ہے ان وی آئی پی مجرموں کو جو سزائیں ہوئی ہیں ان کی تفصیل اب ہر کسی کو معلوم ہے اس کے علاوہ دیگر وی آئی پی مجرم حسن نواز‘ حسین نواز اور میاں صاحب کے سمدھی اسحاق ڈار اشتہاری قرار دیے جا چکے ہیں اور یہ ابھی تک لندن ہی میں قیام پذیر ہیں جیسا کہ اب برطانیہ میں 31جنوری 2018ء سے Unexplained wealth Orderکے قانون کا اطلاق بھی شروع ہو چکا ہے لہٰذا اب لندن کے وسطی علاقے پارک لین میں شریف خاندان کی ملکیت چار لگژری فلیٹس اور لندن کے دیگر علاقوں مے فیئر‘ چیلسی اور بیلگرویا میں لگ بھگ 21کے قریب جائیدادیں جو کہ تمام کی تمام ہائوس آف شریف ہی کی ہیں ان پر برطانوی تحقیقاتی اداروں کی نظریں ہیں۔ کرپشن کے حوالے سے ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری کا چولی دامن کا ساتھ ہے پاکستان میں کرپشن کو فروغ دینے میں تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جب بھی کرپشن کے بارے میں تذکرہ ہو گا تو فوراً میاں نواز شریف زرداری‘ ایک نام کے طور پر سامنے آئیں گے جبکہ عمران خان اس حوالے سے تاریخ میں منفرد حیثیت حاصل کر جائیں گے کہ انہوں نے ہی کرپشن کے خلاف قومی مہم کا آغاز کیا اور پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ اب تین مرتبہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر رہنے والا کڑے احتساب کے شکنجے میں ہے اور ساتھ ہی اس خاندان کے دیگر افراد بھی احتسابی عمل کا سامنا کر رہے ہیں گو کہ اس وقت پاکستانی سیاست انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہے اس کی وجہ کوئی اور نہیں اس کی اصل وجہ دراصل یہ ہے کہ اب پاکستان میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی صورت میں بدعنوانی اور قومی لوٹ مار کے کلچر کا ایک دور ختم ہونے جا رہا ہے یہ سراسر غلط ہے کہ یہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ یا جمہوریت کو بچانے کی جنگ ہے یہ ذاتی دولت جو کہ مملکت سے بھی زیادہ طاقتور ہو چکی ہے اس کے تحفظ کی دونوں خاندان جنگ لڑ رہے ہیں اور اپنے ساتھ معصوم سیاسی کارکنوں کو ملا کر پاکستان میں انارکی پھیلانے کی پوری کوششیں کی جا رہی ہے قوم کو واضح طور پر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ میاں نواز شریف کو مروجہ قانونی طریقے کے عین مطابق چلنے والے کرپشن کے مقدمے میں سزا ہوئی ہے کوئی جواز ہی نہیں کہ اس ضمن میں کوئی احتجاج کیا جائے دوسری جانب سپریم کورٹ کی جانب سے سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کو طلبی کے نوٹس جاری ہو چکے ہیں جو کہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے ہیں ان کے نام اب ECLمیں دیگر 13افراد کے ہمراہ ڈالے جا چکے ہیں آصف علی زرداری کے زرداری گروپ پرائیویٹ لمیٹڈ نے سمٹ بینک سے ڈیڑھ کروڑ روپے نکلوائے اور پھر ساتھ ہی 35ارب روپے بھی اسی بنک سے مختلف اوقات میں نکلوائے یہ تو ایک عام سی کرپشن کی جھلک ہے جو کہ اب دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ سامنے لائی جا رہی ہے ماضی میں ان کی کرپشن کی تو کوئی حد ہی نہ تھی اور پھر تمام شواہد بھی غائب کروائے جاتے رہے یعنی دونوں خاندان جن کو اب ’’میاں نواز شریف زرداری‘‘ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا مل کر دونوں ہاتھوں سے قومی خزانہ لوٹا‘ ماضی میں لندن میں رحمن ملک کے فلیٹ پر میثاق جمہوریت کا معاہدہ طے پایا تھا ذرا اندازہ کریں کہ اس معاہدے میں یہ بھی طے کر دیا گیا تھا کہ پاکستان امریکہ کے زیر قبضہ افغانستان اور بھارت سے ہر قیمت پر خوشگوار تعلقات قائم رکھے گا جبکہ اس سارے عمل سے اور ان کی طے شدہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان دہشت گردی کا شکار ہوا اور اپنے 60ہزار سے بھی زائد شہریوں کو شہید کروا لیا خطے میں آہستہ آہستہ بھارت کی بالادستی قائم ہوتی چلی گئی نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ مملکت پاکستان میں صدارت کے عہدے پر آصف علی زرداری آ بیٹھے اس طرح دونوں خاندانوں ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری کا مک مکا چلتا رہا جمہوریت کے نام پر افواج پاکستان کے خلاف زہر اگلا جاتا رہا اور ساتھ ہی قومی خزانہ بھی لوٹا گیا اور ملک غیر ملکی قرضوں کی دلدل میں پھنس گیا۔ اللہ تعالیٰ نے شریف خاندان کو موقع دیا کہ وہ ایک طویل عرصے تک اقتدار میں رہے لیکن انہوں نے اپنے وطن عزیز کے ساتھ کیا کیا اتنی کرپشن کی کہ جس کے ثبوت لانا بھی ایک مسئلہ بن گیا رنج تو اس بات کا ہے کہ اس خاندان کو اتنی عزت ملی مگر یہ اپنی عزت بچا نہ سکے ایسے ’’جاتی امرا‘‘ اور لندن کی جائیدادوں کا کیا کہ جہاں عزت نام کی کوئی چیز ہی نہ رہی سوائے دولت کی چمک کے۔ اب بددیانت اور چوری کے ٹھپے اس خاندان پر لگ چکے میاں شہباز شریف اور ان کے ولی عہد حمزہ شہباز آئندہ الیکشن میں کوئی سیٹ جیت بھی جاتے ہیں تو پھر وہ کس طرح امانت‘ دیانت اور شرافت کا ٹھپہ لگوائیں گے یقین جانئے کہ اب انتخابی بینرز جو کہ ن لیگ کے ہیں ان پر بیچارے شیر بکری جیسا لگ رہا ہے اب کوئی سمجھے تو بات ہے کہ کیا اب بھی ن لیگ لاہور کر اپنا گڑھ بنوا پائے گی۔ کرپشن کے خلاف جدوجہد کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے برطانوی حکومت سے شریف خاندان کے اثاثوں کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کر دیا ہے اس مطالبے میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ یقینی بنائے کہ شریف خاندان لندن میں کرپشن سے بنائی گئی جائیداد کو استعمال نہ کر سکے برطانوی حکومت کے لیے یہ ٹیسٹ کیس ہے کہ کرپشن کے پیسے کے خلاف کریک ڈائون میں کتنی سنجیدہ ہے اور اب یہ بھی مطالبہ مقامی طور پر پاکستان کی کمیونٹی میں زور پکڑ رہا ہے کہ یہاں برطانیہ میں شریف خاندان کو اب محفوظ پناہ گاہ فراہم نہ کی جائے دوسری جانب لندن کی مختلف یونیورسٹیوں کے علاوہ آکسفورڈ یونیورسٹی اور کیمبرج یونیورسٹی میں زیر تعلیم پاکستانی طالب علموں نے مشترکہ طور پر ایک یادداشت برطانوی وزیر اعظم تھریسامے اور برطانوی پارلیمنٹ کے ممبران کو پیش کی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ برطانیہ میں میاں نواز شریف کے تمام اثاثے اور جائیدادیں ضبط کر کے نیلام کر دیے جائیں اور پھر تمام پیسہ حکومت پاکستان کو دیا جائے اس کے علاوہ اس یادداشت میں آصف علی زرداری کے اثاثوں اور جائیدادوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور لندن میں ہائوس آف شریف اور ہائوس آف زرداری کے اثاثوں اور جائیدادوں کی تفصیل بھی دی گئی ہے یہ پہلا موقع ہے کہ برطانیہ کے مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم پاکستانی طلبا نے مشترکہ طور پر پاکستان میں ہونے والی کرپشن کے حوالے سے آواز بلند کی ہے اس کے ساتھ ہی پاکستانی کمیونٹی کے مختلف گروپس لندن‘ مانچسٹر‘ برمنگھم اور بریڈ فورڈ میں دستخطی مہم کا آغاز بھی کر چکے ہیں جو کہ برطانیہ میں شریف خاندان کے اثاثوں اور جائیدادوں کو ضبط کرنے کے حوالے سے ہے اس دستخطی مہم میں برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس خاندان کے تمام اثاثے اور جائیدادوں کے علاوہ ان کے تمام بینک اکائونٹس منجمد کر دیے جائیں اور اس خاندان کی یہ دولت حکومت پاکستان کو واپس لوٹائی جائے کیونکہ احتساب عدالت کے فیصلے سے ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستان کا قومی سرمایہ لوٹ کر برطانیہ لایا گیا تھا۔ احتساب عدالت کی سماعت کے دوران میاں نواز شریف اور مریم نواز سرکاری پروٹوکول میں آتے رہے حتیٰ کہ جے آئی ٹی میں اپنے بیانات ریکارڈ کرانے کے لیے جس طرح میاں نواز شریف‘ میاں شہباز شریف‘ مریم نواز(ر) کیپٹن صفدر‘ حسن نواز‘ حسین نواز اور سمدھی اسحاق ڈار آئے ان تمام مناظر کو قوم نے اپنی ٹیلی ویژن سکرینوں پر دیکھا۔ عدالت کے باہر آ کر بیانات جس انداز میں دیے گئے اور جس طرح قومی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا یہ ساری قوم نے دیکھا بھی اور سنا بھی تکبر اور غرور اس پورے خاندان پر نمایاں تھا اور ساتھ سرکاری پروٹوکول اور پھر ہٹ دھرمی یہ سب کچھ ہائوس آف شریف کے زوال کا باعث بنا اگر اس خاندان کے دل میں رتی برابر بھی محبت اپنی سرزمین سے ہوتی تو اپنی دولت کا کچھ حصہ ضرور قومی خزانے میں جمع کروا دیتے اور ڈیم بنانے میں اپنا عملی کردار ادا کرتے ہوئے اپنی دولت ڈیمز فنڈ میں جمع کرا کر اس سرزمین سے اپنی محبت کا اظہار کرتے یہ خاندان کم از کم غیر ملکی قرضوں کا بوجھ کم کرنے کی غرض سے اپنے اخراجات کم کرتا مگر ایسا ہرگز نہ ہوا۔ اب ہائوس آف شریف کسی قانون نہیں قدرت کی پکڑ میں آ چکا ہے برطانیہ سے واپس پاکستان لوٹ رہے ہیں ذرا تصور کریں کہ مجرم کی حیثیت سے ان کی واپسی ہو رہی ہے سوال یہ ہے کہ کیا مجرموں کا بھی استقبال کیا جاتا ہے؟ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے‘ اور پھر خاص طور پر نوجوان سیاسی کارکنوں سے بھی سوال ہے کہ کیا وہ میاں نواز شریف کا لاہور ایئر پورٹ پر استقبال کرتے وقت یہ پوچھیں گے کہ آخر آپ کے اپنے نوجوان صاحبزادے حسن اور حسین کیوں نہیں آ رہے؟