وزیر اعظم نے کھانے پینے کی اشیا کی قلت کے خدشے سے ملک بھر میں گڈز ٹرانسپورٹ بحال کرنے کی ہدایت کی ہے۔ لاک ڈائون کے دوران عوام کو ضروریات زندگی کی فراہمی کے لئے انہوں نے ٹائیگر فورس قائم کرنے اور ریلیف فنڈ قائم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ ٹائیگر فورس کے ساتھ رضا کارانہ خدمات انجام دینے کے آرزو مند نوجوانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ 31مارچ سے سٹیزن پورٹل پر اپنی رجسٹریشن کرا سکتے ہیں۔ ٹائیگر فورس کے نوجوان شہریوں کے گھروں تک کھانا پہنچائیں گے۔ وزیر اعظم نے کرونا ریلیف فنڈ سے متعلق بتایا ہے کہ اس سے دیہاڑی دار بے روزگاروں کی مدد کی جائے گی۔ وزیر اعظم روزانہ کی بنیاد پر کرونا وائرس سے نمٹنے اور اس وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ وبا سے متاثرہ پہلے شخص کی پاکستان آمد سے بھی قبل وفاقی حکومت نے چین میں موجود پاکستانی طلباء اور تاجروں کی وطن واپسی کے معاملے پر جس سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اسے دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا تھا کہ ہوائی اڈوں اور سرحدوں پر ضروری احتیاطی بندوبست کر لیا گیا تو پاکستان کو کرونا سے بچایا جا سکتا ہے۔ ابتدا میں پاکستان کے پاس تشخیصی اور سکریننگ آلات کی کمی کی وجہ سے بیرونی ممالک سے آنے والے کئی متاثرہ افراد اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ یہ ایک خرابی تھی۔ کچھ حلقوں نے ہمسایہ برادر ملک سے آنے والے زائرین کو بھی کرونا پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ کرونا کسی ملک سے بھی آیا ہو اس سے ایک بات عیاں ہو گئی کہ پاکستان کے نظام صحت میں کسی سنگین وبا سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں۔ ہمارے ماہرین‘ ہمارے آلات اور ہمارے ہسپتالوں کی استعداد بڑھائے بغیر یہ صورت حال بہتر نہیں بنائی جا سکتی۔ سابق حکومتوں کی کارکردگی یہ رہی کہ تعلیم اور صحت کا بجٹ ایک فیصد تک رہا۔ اس میں سے بڑا حصہ عملے کی تنخواہوں پر اٹھ جاتا۔ نئے آلات اور ٹیکنالوجی کہاں سے آتے۔ سات آٹھ سال پہلے پنجاب میں ڈینگی کی وبا آ گئی۔ حکومت نے سری لنکن ماہرین کے تجربے سے فائدہ اٹھایا۔ انسداد ڈینگی سپرے کیا گیا‘ کچھ جراثیم کش ادویات تقسیم کی گئیں‘ گھروں اور کاروباری مقامات پر مچھروں کی نرسریاں ختم کی گئیں۔ یہ سب مناسب تھا لیکن اسے عارضی انتظام سے زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ڈینگی ہر سال نمودار ہوتا رہا اور ہر سال سابق حکومتوں کا یہی انتظام رہا۔ عشروں پہلے پاکستان میں ملیریا ایک موسمی وبا بن گیا تو اس وقت کی حکومت نے ناکافی وسائل کے باوجود ملیریا انسداد کا ایک محکمہ قائم کر دیا۔ اس محکمے کا اپنا عملہ ‘ گاڑیاں اور دفاتر تھے۔ یہ ان ہی لوگوں کی مسلسل محنت تھی کہ ملیریا جیسا مہلک مرض جو شرح اموات کے حوالے سے کرونا سے زیادہ خطرناک ہے‘ اس کا خاتمہ ممکن ہو سکا۔ وزیر اعظم اس امر سے آگاہ ہیں کہ کرونا سے نمٹنے پر اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ ابھی طبی ماہرین اس بات کا کھوج نہیں لگا پائے کہ یہ وائرس کس طرح سے ختم ہو گا تاہم یہ خدشہ موجود ہے کہ کرونا دوبارہ بھی سراٹھا سکتا ہے۔ اس لئے بہتر ہو گا کہ محکمہ صحت میں ایک ایسا ونگ بنا دیا جائے جو ڈینگی‘ ملیریا‘ ہیضہ ‘ کرونا اور ان جیسی دیگر امراض کے انسداد کی خاطر ضروری آلات‘ ادویات اور ماہرین میں خودکفیل ہو۔ مکمل لاک ڈائون کے نتائج حوصلہ افزا ہیں تاہم اس کے لئے کچھ تدابیر پر عمل ضروری ہے۔ بعض حلقے اس امر کی نشاندہی کرتے رہے ہیں کہ حکومت مکمل لاک ڈائون کرے تاکہ لوگ ایک دوسرے سے دور رہیں اور کرونا کو پھیلنے کا موقع نہ مل سکے۔ ایسی ٹرانسپورٹ کا چلتے رہنا مزید مشکلات کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے جس کے ذریعے ضروری اشیا کی نقل و حمل ممکن ہو سکے۔ حالیہ دنوں سندھ اور پنجاب میں لاک ڈائون کے دوران گڈز ٹرانسپورٹ بند کر دی گئی اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ملک میں گندم‘ آٹا‘ دالیں‘ چینی‘گھی اور چائے وافر مقدار میں ہونے کے باوجود لوگوں تک نہیں پہنچ سکیں۔ کرونا نے پورے ملک میں ایک بے چینی پیدا کر رکھی ہے۔ حکومت اپنی انتظامی صلاحیت کے بل بوتے پر اس بے چینی کو ختم کر سکتی ہے تاہم ضروری ہے کہ ہر صورت حال میں سوچ سمجھ کر معقول فیصلے کئے جائیں۔ وزیر اعظم نے اچھا کیا کہ گڈز ٹرانسپورٹ کی بحالی کا اعلان کر دیا لیکن ایسا فیصلہ پہلے دن سے نافذ رہتا تو حالیہ دنوں جو مشکلات سامنے آئی ہیں ان سے بچا جا سکتا تھا۔ لاک ڈائون کو موثر بنانے کے لئے لازمی قوت ایک منظم رضا کار فورس کا ہونا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ نے لاکھوں نوجوانوں کو رضا کارانہ خدمات کے لئے طلب کر لیا ہے۔ ریٹائرڈ فوجیوں کو بھی بلا لیا گیاہے تاکہ وبا کے دوران ان کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ وزیر اعظم کا یہ فیصلہ درست ہے کہ ٹائیگر فورس کو لاک ڈائون کے دوران لوگوں کے گھروں میں کھانا پہنچانے کے لئے استعمال کیا جائے۔پاکستان میں سکائوٹس ‘ گرلز گائیڈ اور سماجی بہبود کے لئے کام کرنے والی کئی تنظیمیں وسیع نیٹ ورک رکھتی ہیں۔ نئی فورس ناتجربہ کار ہو گی‘ اس کے نوجوانوں کو اگر پہلے سے موجود تنظیموں کے ساتھ اشتراک کے ذریعے متحرک کیا جائے تو حسب توقع نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہے کہ دو عشرے قبل کالجز میں نیشنل کیڈٹ کور کی شکل میں ایک تربیت یافتہ فورس موجود تھی۔ آئندہ کے حالات کنٹرول میں رہیں اس کے لئے این سی سی کی تربیت کا سلسلہ بحال کر دینا چاہیے۔ وزیر اعظم کی فکر مندی اور درد مندی قابل قدر ہے‘ کرونا ایک خطرناک وبا بن چکی ہے اس کے انسداد کے لئے بروقت اور واضح فیصلے ضروری ہیں۔ وبا کے انسداد کے لئے وزیر اعظم خود قیادت کر رہے ہیں اس لئے انہیں وقت ضائع کرنے والے ہر اقدام سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔