2008ء میں دنیا بھر کی فنانشل منڈیوں پر اس وقت بم شل گرا دئیے گئے جب امریکہ میں بینک کرپٹسی کی وجہ لمین بردارز بینک اچانک بند ہوگئے امریکہ، برطانیہ اور یورپ کی مضبوط معیشتوں کے غبارے پھٹ گئے جسے کریڈٹ کرنچ یا کساد بازاری کا نام دیا گیا۔ مکانوں کی قیمتیں گر گئیں بینکوں نے قرضے دینے بند کردیئے کاروبار ٹھپ اور بے روزگاری عام ہوگی۔ رئیل سٹیٹ کے بزنس کو تالے لگ گئے۔ میں لندن میں ہی تھا جبکہ بڑے بھائی دبئی شارجہ میں اپنے دو تین بزنس کر رہے تھے میرا وہاں اکثر آنا جانا لگا رہتا تھا۔ دبئی میں امریکہ یورپ اور دیگر ممالک کے کاروباری لوگ بینکوں سے قرضے لے کر کاروبار کر رہے تھے۔ قرضے آسانی سے بینک دے دیا کرتے تھے کریڈٹ کرنچ کے بعد دبئی ائیرپورٹ پر یہ سارے غیر ملکی اپنی گاڑیاں چھوڑ کر اپنے اپنے ملکوں میں چلیگئے۔ ہم جو برطانیہ یورپ یا امریکہ میں رہتے ہیں ہمارے بارے میں پاکستان میں ہمارے اہل خانہ یا اہل وطنوں کی یہ رائے عام ہے کہ ہم امیر کبیر اور آسودہ حال ہیں۔ ہمارے کوئی مسائل یا مشکلات نہیں ہیں۔ اللہ بخشے میری ماں جی پاکستان میں حیات تھیں ہر روز صبح بات ہوتی رہتی تھی۔ اگر میں لیٹ ہوجاتا تو ماں جی فون کر دیتی تھیں۔ کریڈٹ کرنچ کے بعد انہوں نے حسب معمول ایک دن فون کیا پوچھنے لگیں بیٹا کیا حال ہے۔ میں نے اپنا کریڈٹ کرنچ مہنگائی کاروبار ٹھپ بے روزگاری کا دکھڑا سنانا شروع کردیا۔ ماں جی کافی دیر سنتی رہیں میرے خاموش ہونے کے بعد بول پڑیں بیٹا بیوائیں بھی روتی ہیں اور سہاگنیں بھی -(رنڈیاں وی روندیاں تے سہاگناں وی)۔ تم انگلینڈ میں رہتے ہو اور مہنگائی بے روزگاری کا رونا روتے ہو تو ہم پاکستان والے اپنے حالات کے بارے میں کیا کہیں۔ پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ باہر کی دنیا میں رہنے والے آسودہ حال ہیں وہاں کوئی مسئلے مسائل نہیں۔ پاکستان میں جو مہنگائی کا موجودہ طوفان آیا ہوا ہے وہ تو ناقابل برداشت ہے لیکن ادھر برطانیہ میں جو کوئی 20 لاکھ پاکستانی تقریباً رہ رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہاں مہنگائی نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ اس سے سب کتنے پریشان ہیں۔ گزشتہ ہفتے برطانیہ کے تیس شہروں میں لندن سمیت ہزاروں افراد نے مہنگائی کے خلاف مظاہرے کئے ہیں۔ ہفتہ 5 مارچ سے پیپلز اسمبلی نے بڑے پیمانے پر ملک گیر مظاہروں کا سلسلہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کی وجہ گیس اور بجلی کے نرخوں میں54 فیصد اضافہ ہے۔ جو سالانہ تقریبا سات سو پونڈز بنتے ہیں۔ پیٹرول اور دیگر اشیائے خوردونوش کے نرخوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ برطانیہ میں مہنگائی تیس سالوں میں سب سے زیادہ بڑھی ہے۔ بعض اشیاء میں 7.5 فیصد اور بعض میں 5.4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پیپر کی مصنوعات میں پچاس پلاسٹک میں 40 فیصد آٹا 40 فیصد چاول 15 فیصد سافٹ ڈرنکس 20 فیصد ویجیٹیبل آئل 45 فیصد جبکہ دالیں 25فیصد مہنگی ہوئی ہیں۔ سبزیاں پھل گاڑیوں کی قیمتوں میں تقریباً 30-40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ فی کس آمدنی میں اضافہ نہیں ہوا۔ ایک عام ڈیلی ویچیز پر کام کرنے والا شخص تقریباً 12 سو پونڈز ماہانہ تنخواہ تمام تر ٹیکس ادا کرے کے بعد کما رہا ہے۔ اس میں اس کو سارے بل ادا کرنے پڑتے ہیں۔ جب کہ لوکل گورنمنٹ کا ٹیکس تقریباً ڈیڑھ سو پونڈز فی گھر ہے۔ اسی لئے عوام سڑکوں پر آگے ہیں۔ اب اپریل سے ٹیکسوں اور نیشنل انشورنس میں اضافہ کیا جارہا ہے۔ گاڑیوں کی قیمتوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں بھی یہی حال ہے ماہر معاشیات یہ پیشن گوئیاں کررہے ہیں کہ اگر کورونا کی کوئی اور لہر نہ آئی اور یوکرائن کے مسئلے پر روس اور یورپ میں کوئی جنگ نہ ہوئی تو برطانیہ امریکہ اور یورپ کی معشیت کو واپس اپنی جگہ آنے کے لئے کوئی آٹھ سال لگ سکتے ہیں۔ جہاں پر عالمی معیشت کورونا سے پہلے مارچ 2020ء میں تھی۔ کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے مسلسل دو سال میں عالمی معیشت اس قدر تباہ ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ عالمی معیشت اور مہنگائی کے اثرات پاکستان پر بھی بری طرح پڑے ہیں اورپاکستان میں مہنگائی کا جو طوفان آیا ہے اسے ماننے کے لئے کوئی تیار نہیں۔پاکستان میں مہنگائی کی چند موٹی موٹی وجوہات بیان کردیتا ہوں۔ 1-غیر ترقیاتی اخراجات حکومت کو لازمی اٹھانے ہوتے ہیں جس میں تنخواہیں پنشن مراعات اور ہنگامی صورتحال میں جیسے قدرتی آفات. 2-قرضوں کی قسطیں اور قرضوں کا سود جو حکومت ادا کرتی ہے 3-دفاعی اخراجات جو زیادہ ضروری ہیں 4-کورونا کی وجہ سے پیداوار اور آمدنی میں تعطل جو پیدا ہوا اور کاروباری سرگرمیاں رک گئی ہیں۔ 5-عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں بے حد اضافے کے اثرات۔ 6 کرپشن دیمک کی طرح ملکی معیشت کو کھا رہی ہے۔ 7- بیڈ گورننس یا بری طرز حکومت۔ 8-دہشتگردی جلسے جلوس ہنگامہ آرائی توڑ پھوڑ۔ 9 سیاسی عدم استحکام بھی معاشی عدم استحکام کا باعث ہے۔ 10- غیر ملکی مداخلت اور دشمن عناصر کی پراکسی وار بھی ملک کی معیشت کو کمزور کرنے کا باعث بن رہی ہے۔