رمضان المبارک آخری عشرے میں داخل ہو چکا ہے۔ ایک طرف عبادتوں میں خشوع خضوع بڑھتا ہے تو دوسری طرف بازاروں میں منافع خوری بڑھنے لگتی ہے۔ مرشدی احمد جاوید کہتے ہیں کہ رمضان المبارک روح کا مہینہ ہے۔ مگر ہمارے ہاں رمضان المبارک میں اہل وطن جس طرح ناجائز منافع خوری پر کمر باندھ لیتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ رمضان تو کمانے اور زیادہ سے زیادہ منافع خوری کرنے کا مہینہ ہے۔جوں جوں عید کے دن قریب آتے ہیں۔ عید کی تیاریوں کے لئے اہل وطن بازاروں کا رخ کرتے ہیں‘اسی شدت سے بازاروں میں پہلے سے موجود مال‘ دگنی تگنی قیمت پر بکنے لگتا ہے۔ ہر شخص کو خریدار دیکھ کر دکاندار بڑے بھلے ‘ خاصی اور خرابی والا مال بھی بغیر بتائے۔فروخت کرنے لگتے ہیں۔ پھر یہی چھوٹے بڑے تاجر دکاندار‘ آخری طاق راتوں میں جاگ کر شب قدر تلاش کرتے ہیں۔ہر کام میکانکی اور روبوٹک انداز میں ہوتا ہے۔ کسی پل ٹھہر کر رک کر اپنا محاسبہ کرنے اور اپنے اعمال کا جائزہ لینے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ایک پوسٹ نظر سے گزری جسے امام خانہ کعبہ سے منسوب کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔سوشل میڈیا پر کون سا سچ کی حکمرانی ہے۔بہرحال امام کعبہ سے منسوب بیان سے جس کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے کہ رمضان کے آخری عشرے میں کرنے والے اعمال رات ایک روپیہ خیرات کریں اگر وہ رات لیلتہ القدر کی ہوئی تو وہ ایک روپیہ خیرات ایسے ہو گی، جیسے آپ نے 80سال خیرات کی ہو۔ اسی طرح ہر رات دو رکعت نماز نفل ادا کریں جس رات لیلتہ القدر ہو گی وہ نماز ایسی ہو جائے گی جیسے 80سال عبادت کی ہو۔دوست احباب ہر سال رمضان کے آخری عشرے میں اس پوسٹ کو اپنے مسلمان بھائی بہنوں سے شیئر کر کے ثواب دارین حاصل کرتے ہیں۔ ہمارا دل مگر مانتا نہیں کہ نہ عبادتیں اتنی سطحی ہو سکتی ہیں نہ اپنے رب سے تعلق اس طرح کا سطحی ہو سکتا ہے۔ اللہ سے تعلق کے لئے بھی ہم جگاڑ کرتے ہیں۔ ہمارے پاس دیانت بھری توجہ اور دیانت بھرا وقت اپنے خالق کے لئے بھی میسر نہیں۔عبادتیں ہمارے معلومات زندگی اور معاملات حیات کو پاکیزہ کیوں نہیں کرتیں؟رمضان کے ایک مہینے کے تربیتی کورس کے بعد کوئی تو اچھی تبدیلی بحیثیت فرد اور بحیثیت قوم ہمارے کردار میں آنی چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ غیبتیں ‘ چغلیاں‘ دھوکہ دہی کرپشن جھوٹ بددیانتی منقسم مزاجی ‘حسد‘بخل‘ کنجوسی‘خود پرستی جیسی تمام روحانی بیماریاں ہمارے رمضان کے معمولات میں بھی جاری رہتی ہیں۔کیا روزے میں بھوک پیاس کے علاوہ بھی ہمارے ہاتھ کچھ آتا ہے۔؟یا پھر ہم خالی دامن ہی رہتے ہیں۔ مرشدی احمد جاوید نے رمضان اور ہم کے عنوان سے بڑی سیر حاصل اور فکر انگیز گفتگو فرمائی ہے۔گفتگو کیا سنی۔ ایسا لگا کہ کسی نے میرے سامنے آئینہ رکھ دیا ہے اور میں اس آئینے میں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا وہ چہرہ دیکھ رہی ہوں جو میں دیکھنا ہی نہیں چاہتی۔ہو سکے تو یوٹیوب پر اسے ضرور سنیں۔ مگر دل کی سماعتوں سے اُس وقت جب اپنے اعمال اور اپنے احوال پر غورو فکر کا کچھ وقت میسر ہو۔ کچھ حصہ کالم میں شامل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ فرماتے ہیں کہ’’ہم لوگوں نے مذہبی اصطلاحات کو صرف زبان کے سپرد کر دیا ہے،اس کے معنی ہمارے دل میں نہیں رچے بسے۔ اس کی کیفیت سے ہمارا دل خالی ہے۔ الحمداللہ ‘ سبحان اللہ ۔ اللہ یہ سب الفاظ زبان کا اندوختہ بن گئے ہیں۔روح اور دل میں نہیں اترتے۔رمضان روح کا مہینہ ہے جب کہ ہم وہ لوگ ہیں جو اپنے روحانی وجود سے تقریبا دستبردار ہو چکے ہیں۔ ہم نے اپنے روحانی وجود کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ ہماری اجتماعی نفسیات بہت ہولناک ہو چکی ہے۔ اگرچہ بہت اچھے لوگ موجود ہیں مگر یہ اجتماعی نفسیات کی بات ہے کہ سیٹ تو معبود کی ہے اس پر نام اللہ کا لکھا ہوا ہے مگر اس پر بیٹھا میں خود ہوں۔ آدمی خود کو خود پر نثار کرتا رہتا ہے۔ہم میں سے بیشتر کی نفسیات یہ ہیں کہ ہم اللہ کو ناراض تو نہیں کرنا چاہتے لیکن ہمارے دل میں اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی طلب اور لگن بھی موجود نہیں۔یہ دہری شخصیت کا معاملہ ہے۔ ایک مذہبی شخصیت ہے اور غیر مذہبی شخصیت ہے۔ حالات ایسے ہیں کہ غیر مذہبی شخصیت کی ضرورتیں پوری کرانے میں ہی سارا زور لگ جاتا ہے یوں مذہبی مطالبات کی تکمیل سرسری انداز سے ہوتی ہے۔ ایسی نفسیات کے ساتھ ہم رمضان گزارتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ مہینہ گزشتہ گیارہ مہینوں کی غفلت اور معصیت کا ازالہ کر دے گا۔عید کا چاند دیکھ کر شیطان کو قید سے نکلنے کی وہ خوشی نہیں ہوتی جو ہم روزہ داروں کو ہوتی ہے‘مکرمی احمد جاوید کا کہنا ہے کہ ہم اس لئے رمضان گزار کر بھی بہتری کی طرف مائل نہیں ہوتے کہ ہم پر نفس کا غلبہ بہت شدت سے ہے۔ ایسے میں انفاق پر توجہ دیں، اپنے آپ کو چھپانے کا اہتمام کرتے ہوئے انفاق کریں، یعنی ضرورت مندوں کی مدد کریں اپنے آپ کو تنگی کی حد تک پہنچا کر ضرورت مندوں کے لئے خرچ کریں۔ ایک جملہ توجہ طلب ہے کہ مدد کرتے ہوئے خود کو چھپانے کا اہتمام کریں۔ جبکہ ہمارے ہاں تو ایک آٹے کا تھیلہ دیتے ہوئے بھی اہتمام یہ کیا جاتا ہے کہ خود کو نمایاں کیا جائے خود کو دکھایا جائے۔ تعریفیں سمیٹی جائیں اس کے لئے تصویروں کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا جائے۔ اس سے گریز کرنا چاہیے، بہت سے ایسے مخیر حضرات دیکھے ہیں، جو خالص اللہ کے لئے دوسروں کی مدد کرتے ہیں اور اپنا نام بھی بتانا گوارا نہیں کرتے۔ اللہ کریم کو ایسے ہی خالص اعمال پسند ہیں۔چند دن اور پھر رمضان المبارک وداع ہو جائے گا۔اس بار ذرا غور کیجیے گا کہ ایک مہینے کے تربیتی کورس نے آپ کی شخصیت کے کس حصے کو اجالا۔آپ کے معمولات اور معاملات زندگی میں کہاں بہتری آئی۔!خدا کرے کہ روزے گزارنے کے بعد بھوک پیاس کے علاوہ بھی ہمارے دامن میں کچھ ہو۔اپنے روحانی وجود کی حفاظت کریں ،اس سے دستبردار ہو کر نمازیں‘ روزے اور عبادتیں بے روح سرگرمی کے سوا کچھ بھی نہیں۔