م ۔ الف

 

ایک بڑی سٹڈی میں معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ گوشت نہیں کھاتے اور سبزیا ں ترکاریاں کھاتے ہیں ، ان میں دل کی بیماریاں ہونے کا خدشہ کم ہوجاتا ہے تاہم فالج ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

اس سلسلے میں تحقیق برطانوی جریدے برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہوئی جس میں اڑتالیس ہزار افراد کا جائزہ لیا گیا۔

تاہم اس سے یہ ثابت نہیں ہوا کہ آیا کہ اس اثر کی وجہ کھائی جانے والی خوراک ہے یا لائف سٹائل کے حوالے سے کوئی اور پہلو ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگ چاہے کچھ بھی کھائیں ، تاہم متنوع اور مختلف اقسام کی غذائیں کھانے سے ہی ان کی صحت میںبہتری آئے گی۔سٹڈی میں کیا بات نئی ہے؟یہ سٹڈی ای پی آئی سی آکسفورڈ سٹڈی جو کہ غذا اور صحت کے تعلق کے حوالے سے ایک طویل مدتی سٹڈی ہے ، کے اعدادوشمار کا تجزیہ کرتی ہے 

سٹڈی کے نصف شرکاء جن کو انیس سو ترانوے اوردوہزار ایک کے دوران بھرتی کیا گیا ، گوشت خور تھے جبکہ سبزی خو روں کی تعداد سٹڈی میں سولہ ہزار تھی ۔ان کے علاوہ ساڑھے سات ہزار مچھلی خور تھے۔شرکاء سے جب انہوں نے سٹڈی کو جوائن کیا ، تب ان کی خوراک کے با رے میں پوچھا گیا اور پھر دوہزار دس میں یہی سوال کیا گیا۔میڈیکل ہسٹری ، سگریٹ نوشی اور جسمانی سرگرمی کو بھی نظر میں رکھا گیا۔مجموعی طورپر سٹڈی میں کورونیری ہارٹ ڈیزیز (سی ایچ ڈی ) کے 2,820 کیس تھے جبکہ فالج کے کیسوں کی تعداد 1,072 تھی جن میں برین ہیمرج کے تین سو کیس تھے جو کہ فالج کی وہ حالت ہے جس میں کوئی خون کی کوئی کمزور شریان پھٹ جاتی ہے اوردماغ میں خون بہنے لگتا ہے۔

سٹڈی کے مطابق مچھلی خوروں میں گوشت خوروں کے مقابلے میں دل کی شریانوں کی بیماری کا خطرہ تیرہ فیصد کم ہوگیا جبکہ سبزی خوروں میں اس میں بائیس فیصد کمی ہوئی۔ تاہم سبزی خوروں میں فالج کا خطرہ بیس فیصد تک بڑھتا ہوا پایا گیا۔محققین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ وٹامن بی بارہ کی کمی ہوسکتی ہے تاہم اس تعلق کو جانچنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ اس تعلق کی وجہ سرے سے لوگوں کی خوراک نہ ہو اور جو لو گ گوشت نہیں کھاتے ، ان کے طرز زندگی میں کوئی ایسی بات ہو جو فالج کی باعث بنتی ہو۔

برٹش ڈائیٹک ایسوسی ایشن کی ڈاکٹر فرینکی فلپ کا کہنا ہے کہ سٹڈی میں دیکھا گیا کہ لوگ کیا کھاتے ہیں اور پھر سالہا سال تک ان کو فالو کیا گیا چنانچہ یہ ایک تعلق ہے ، کاز اور ایفکٹ نہیں ہے ۔

اس سٹڈی کے سلسلے میں سب کے لیے یہ پیغام ہے کہ وہ اپنی غذائی عادت میں منصوبہ بندی کریں اور متنوع اور طرح طرح کی خوراکیں کھائیں اور ایک ہی قسم کی خوراک پر انحصار نہ کریں۔دوسرے لفظوںمیں متنوع غذاہی ایک کنجی ہے ، یہ نہیں کہ روزانہ گوشت کھایا جائے یا روزانہ سبزی کھائی جائے۔

گوشت خوروں کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ متنوع غذا سے خود کو محروم رکھتے ہیں کیونکہ وہ زندہ ہی گوشت پر ہوتے ہیں اورسبزیاں کھانے میں کوتاہی برتتے ہیں۔

سٹڈی کے محققین نے دوہزار دس میں شرکاء سے دوبارہ پوچھا کہ وہ کیا کھاتے ہیں۔ڈاکٹر فرینکی کا کہنا ہے کہ سبزی خوروں کو اپنی غذا کو بدلنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ یہ وہ ڈیٹا ہے جو کئی عشروں قبل اکٹھا کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت سبزی خور جو غذا لے رہے ہیں ، وہ بیس تیس سالوں پہلے لی جانے والے سبزی کی غذائوں سے مختلف ہوسکتی ہے۔اس وقت جو صورت حال ہے اس کے مطابق سبزی خوروں کی غذائی ترجیحات میں بڑا تنوع آیا ہے اور یہ بڑی حد تک مین سٹریم کی غذا میں تبدیل ہوچکی ہے۔

اس کے علاوہ اب اس بارے میں بھی زیادہ معلومات رکھتے ہیں کہ پراسس شدہ اور سرخ گوشت سے بنی غذائیں بھی ہماری صحت کے لیے خطرہ ہیں کیونکہ ان غذائوں سے انتڑیوں کا کینسر ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔

توپھر ہمیں کیا کھانا چاہیے؟برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کی گائیڈ کے مطابق ہم جو بھی کھائیں ،متوازن کھائیں۔کھانے میں کم ازکم پانچ پورشن پھل اور سبزیاں بھی کھائیں۔پروٹین کے لیے بغیر چربی کا گوشت ، مچھلی ، سمندری خوراکیں، دالیں ، ٹوفو اور بغیرنمک کے نٹس وغیرہ کھائیں۔ جن چیزوں میںچکنائی ، مٹھاس یا نمک کی زیادتی ہے ، ان کو کبھی کبھی ہی کھائیں اور تھوڑی مقدار میں ہی کھائیں۔اس طرح جو لوگ سبزی خور ہیں اور سبزیوں ترکاریوں پر مشتمل غذائیں کھاتے ہیں ، ان کے چاہیے کہ اپنی غذاکو متنوع بنائیں اوران سے غذائیت حاصل کریں ۔مثال کے طورپر جو لوگ گوشت ، ڈیری مصنوعات ، مچھلی وغیرہ کھاتے ہیں ان کو بی بارہ وٹامن کثرت سے ملتاہے جو ان کے خون کوصحت مند بناتا ہے اور نروس سسٹم کو بہتر بناتا ہے۔

اس کے مقابلے میں سبزی خوروں میں بی بارہ وٹامن کی کمی ہوسکتی ہے حالانکہ فورٹی فائیڈ بریک فاسٹ میں بی بارہ وٹامن موجود ہوتاہے۔