گذشتہ روز سندھ اسمبلی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کافی تیار نظر آئے۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ اب تک لکھ کر دیے گئے نوٹس کی انگلی پکڑ کر بولتے ہیں مگر برسوں کی محنت اب ان کے انداز سے جھلکنا شروع ہوئی ہے۔ آصف زرداری کو اس دن کا انتظار تھا۔ اب آصف زرداری پیچھے بیٹھ کر سیاسی کھیل کھیلنے لگے ہیں۔ آصف زرداری کو معلوم ہے کہ پاکستان کی سیاست میں بڑی جماعتوں کی قیادت اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے وہ اپنے صاحب زادے کو آگے لا نے کی کوشش کرتے رہے۔ شیخ رشید اور بہت سیاسی مبصروں کا موقف تھا کہ بلاول سیاست کے اسٹیج پر کامیاب نہ ہو پائے گا مگر اس نے چند برسوں میں یہ ثابت کیا ہے کہ وہ صرف آصف زرداری کا بیٹا ہی نہیں، اس کی رگوں میں بینظیر بھٹو کا خون بھی ہے۔ اب جس انداز سے بلاول آگے بڑھ رہا ہے اس سے پیپلز پارٹی والوں کی پریشانی کافی کم ہوئی ہے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ شاید انہیں بلاول کی صورت بہتر قیادت نہ مل پائے مگر اب ان کو ایک طرح کا آسرا ضرور ملا ہے۔ سیاست کا سفر بہت مشکل اور بیحد تکلیف دہ ہوا کرتا ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری کے ابتدائی قدم اچھے ہیں مگر اس سفر میں حوصلے اور صبر کا کڑا امتحان دینا پڑتا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری ایک آدھ اچھی پریس کانفرنس کرنے سے یہ مت سمجھیں کہ وہ کامیاب ہوگئے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے۔ مگر سیاست کے امتحان میں بیٹھنا بھی کوئی کم کامیابی نہیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے کہ انہوں نے اقتدارکی سیاست کے انٹری ٹیسٹ میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اب یہ کامیابی وہ کس حد تک بڑھاتے ہیں؟ یہ ہمیں آگے دیکھنا ہے۔ مگر اب بھی انہوں نے جو کچھ کیا ہے وہ اس قدر کم نہیں کہ ان کو داد نہ دی جائے۔انہوں نے جس طرح چند روز قبل میاں نواز شریف سے ملاقات کی اور ملاقات کرنے کے بعد انہوں نے جس طرح میڈیا سے بات چیت کی وہ بری نہیں تھی ۔ میاں صاحب سے ملاقات کرنے کے بعد انہوں نے سراج درانی کی حمایت میں جو قدم اٹھایا وہ بھی بہت مشکل تھا۔ بلاول نے جس طرح سندھ اسمبلی میں سراج درانی سے ملاقات کی اور ملاقات کرنے کے بعد انہوں نے ایک گھنٹے تک جو پریس کانفرنس کی ؛ وہ پریس کانفرنس دیکھ کر پیپلز پارٹی کی پہلی اور دوسری قیادت نے ان کو داد دی ہوگی اور ان کے اعتماد کو دیکھ کر زرداری بھی بہت خوش ہوئے ہونگے ۔ بلاول بھٹو زرداری کی اچھی پرفارمنس کو بہت ساری آنکھوں نے دیکھا ہوگا مگر ان بہت ساری آنکھوں میں وہ دو آنکھیں نہیں تھیں جو آنکھیں ماں کی تھیں۔ وہ آنکھیں جو ہمیشہ کے لیے بند ہوچکی ہیں۔ اگر وہ دو آنکھیں ان کو اس طرح سے دیکھتیں تو ضرور کہہ اٹھتیں کہ بلاول پر بوجھ مت بڑھاؤ۔ میرے بیٹے پر اتنا بوجھ مت لادو۔ سیاست بہت سفاک اور بے حس ہوا کرتی ہے۔ سیاست میں لوگ صرف نتائج کو دیکھتے ہیں۔ سیاست میں لوگ اس تکلیف کو نہیں محسوس کرسکتے جس تکلیف سے کوئی انسان گزرتا ہے۔ اگر سیاست کے سینے میں دل ہوتا تو اس دل میں بلاول بھٹو کے لیے ایسا احساس بھی ہوتا جیسا احساس کوئی اپنا محسوس کرتا ہے۔ بلاول کو ان کے والد جس طرح سیاست کے سنگ لاخ راستے پر چلانے کے لیے دھکیل رہے ہیں وہ سب کچھ بہت افسوسناک ہے۔ سیاست میں مشکل راستہ اختیار کرنا برا نہیں۔ مشکل راستہ تو ایک فرد کو لیڈر بننے کے لیے بہتر انداز سے تیار کرتا ہے۔ کوئی بھی ذہین اور باشعور انسان سیاست یا کسی بھی شعبے میں مشکل مشق کی مخالفت نہیں کرسکتا۔ اس لیے اختلاف اس بات پر نہیں ہے کہ بلاول پر زیادہ بوجھ کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ اختلاف اس بات پر ہے کہ آصف زرداری بلاول پر اپنی غلطیوں اور اپنے گناہوں کا بوجھ مسلسل بڑھا رہے ہیں۔ یہ بات کیسے ٹھیک ہوسکتی ہے کہ جس بچے کے دامن پر ابھی تک ذاتی کرپشن کا ایک داغ بھی نہیں اس سے ان کرپٹ افراد کا تحفظ کروایا جائے جو سر سے لیکر پاؤں تک کرپشن کی کالک سے کالے ہیں۔بلاول بھٹو کے کندھے بہت نازک ہیں ان پر سیاسی گناہ گاروں کا اس قدر بوجھ نہ بڑھایا جائے کہ وہ کندھے مڑ جائیں۔ بلاول بھٹو کی معصومیت کو جس برے طریقے سے مسلا جا رہا ہے۔ ان کو جس طرح بدکردار سیاستدانوں کے تحفظ میں آگے لایا جا رہا ہے ۔ اس عمل سے تو اس کی شخصیت مسخ ہوجائے گی۔ کیا یہ ظلم نہیں ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو میاں نواز شریف سے اس لیے ملوایا جاتا ہے ؛ کیوں کہ میاں نواز شریف آصف زرداری سے ملنے کے لیے تیار نہیں۔ آصف زرداری سے دوبدو ملاقات کروانے کے لیے خورشید شاہ نے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی منتیں کی مگر وہاں سے ایک ہی جواب آیا کہ :نہیں! پھر جب بلاول کے لیے بات کی گئی تو میاں صاحب فوری طور پر مان گئے۔ پیپلز پارٹی والوں نے سمجھا کہ یہ ان کی کامیابی ہے۔ مگر حقیقت میں یہ بلاول کے ساتھ بہت بڑی زیادتی تھی وہ بچہ اس کی حمایت میں بولے جس بچے نے ذاتی طور پر اب تک کوئی کرپشن نہیں کی۔ میاں نواز شریف کو معلوم تھا کہ اگر آصف زرداری ان سے ملنا آئے تو ان کے کردار کی کالک بھی ان کو لگ جائے گی یا اگر نہیں تو کم از کم آصف زرداری سے گلے لگ کرمیاں نواز شریف پر لگی ہوئی کرپشن کی کالک کم نہیں ہوگی۔ اس لیے میاں نواز شریف نے ملاقات کے لیے بلاول کا انتخاب کیا۔ کیوں کہ بلاول کا دامن اب تک اجلا ہے۔ میاں نواز شریف اپنی شخصیت پر لگی ہوئی کرپشن کی کالک بلاول سے مل کر کم کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا ظلم اور ایسی زیادتی بینظیر بھٹو زندہ ہوتیں تو برداشت نہ کرتیں ۔ آصف زرداری کے لیے سب کو معلوم ہے کہ وہ اپنے مفاد کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ کیا بلاول پر کی جانے والی زیادتی کے حوالے سے میاں نواز شریف سے ملاقات کافی نہیں تھی؟ میاں نواز شریف سے ملاقات کروانے اور میڈیا کے سامنے اس کی حمایت کروانے کے بعد بلاول بھٹو زرداری کو سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کی حمایت میں آگے لایا گیا۔ جس وقت میڈیا میں آغا سراج درانی کی کرپشن کے چرچے عام ہیں۔ جس وقت اس کے بینک لاکرز سے دس کلو سے زیادہ سونا برآمد ہوتا ہے۔ جس طرح سے اس کی کرپشن سے کمائی ہوئی ملکیت پورے ملک میں دریافت ہو رہی ہے۔ جس طرح سے وہ اپنے عہدے کو ناجائز طریقے سے استعمال کرتے ہوئے نیب کی تفتیش سے خود کو بچانے کے لیے سندھ اسمبلی کا غیر ضروری اجلاس کروا رہا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کس قدر کمزور اور کس قدر ڈرا ہوا ہے۔ جس خاندان کے لیے آغا سراج درانی نے سندھ کے خزانے کو لوٹا وہ خاندان تو اس کو چھوڑ کر امریکہ چلا گیا ہے۔ کرپشن کے مجرموں کو بچانے کے لیے نہ صرف پنجاب بلکہ سندھ میں بھی بلاول بھٹو کو آگے لایا جا رہا ہے۔ اس وقت سندھ میں بلاول بھٹو زرداری کے لیے عوامی حمایت کی کوئی بہت بڑی لہر نہیں اٹھی مگر اس کے لیے عوام کے دل میں جو ہمدردی ہے اس ہمدری کو بھی زرداری اور ان ساتھی ختم کرنے کے درپے ہیں۔ وہ جس طرح بلاول کو عمران خان سے لڑوا رہے ہیں اور وہ جس طرح نواز شریف اور ملک کے دیگر کرپٹ کرداروں سے گلے ملے رہے ہیں۔ وہ سب عوام دیکھ رہے ہیں۔ عوام کے دل میں بھی اس عمل کے خلاف احساسات امڈ رہے ہیں۔ مگر وہ خاموش ہیں۔ عوام کی خاموشی سے غلط مطلب لینا درست نہیں۔ اس وقت بلاول بھٹو کے حوالے سے اگر عوام خاموش ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ سوچ نہیں رہے۔ عوام سوچ رہے ہیں۔ عوام سوچ رہے ہیں کہ بلاول کے کمزور کندھوں پر کرپشن کا بوجھ نہ بڑھایا جائے۔