بلاول بھٹو زرداری کی نواز شریف سے ملاقات بسلسلہ عیادت پر وزیر اطلاعات نے جو تبصرہ کیا‘ اس پر عوام کا فوری ردعمل وہی تھا جو گزشتہ روز بلاول نے دیا۔ وزیر اطلاعات نے فرمایا‘ بلاول نے صدی کا سب سے بڑا یوٹرن لیا۔ فوری عوامی تبصرہ یہ تھا کہ گویا فواد صاحب نے بلاول کو صدی کا سب سے بڑا لیڈر مان لیا کہ یہ فارمولا انہی کے قائد کا ہے کہ جتنا بڑا یوٹرن اتنا بڑا لیڈر۔ یہی بات بلاول نے ازراہ مزاح اپنے تبصرے میں کر دی۔ ازراہ مزاح اس لئے کہ ازراہ طنز جواب میں تو پھر یہ سوال بھی ہوتا کہ انکل جی آپ کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ بھی تو فارمولے کے تحت عظیم لیڈروں میں شامل ہیں۔ ویسے فواد چودھری کے یوٹرنز کو اتنا زیادہ بھی یوٹرن نہیں کہا جا سکتا۔ آپ نے مشرف لیگ سے سیاست شروع کی‘ پھر پیپلز پارٹی میں گئے‘ وہاں سے پی ٹی آئی میں آ گئے ۔ جب آپ پیپلز پارٹی میں تھے تو آپ نے عمران خاں کے بارے میں ایمان افروز ٹویٹس کی ایک سیریز جاری کی تھی۔ علاوہ ازیں ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر بھی آپ خاں صاحب کے حوالے سے نہایت ولولہ انگیز انکشافات فرمایا کرتے تھے۔ ان ایمان افروز ٹویٹس اورولولہ انگیز و ’’ٹاک شوز‘‘ دیکھ اور سن کر دیکھنے اور سننے والوں کے کان شفق رنگ ہو جایا کرتے تھے۔ ٭٭٭٭٭ یہ تو خیر ہلکی پھلکی بات تھی اصل بات یہ ہے کہ بلاول کی تقریر بہت ہی ’’گرم‘‘ تھی اتنی گرم کہ ان کے والد محترم کی اینٹ سے اینٹ بجانے والی تقریر یاد آ گئی۔ زرداری صاحب کو پرائشچت کے لئے بہت سے پاپڑ بیلنا پڑے جن میں سب سے مشہور بلوچستان کا سنجرانی ماڈل والا پاپڑ تھا۔ اس پاپڑ ے بعد جو پاپڑ منڈی سجی۔ وہ پھر سب نے دیکھی۔ بلاول کو کیا کرنا ہو گا۔ اس کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔ البتہ کچھ واقفان حال کہتے ہیں کہ بلاول پاپا کی طرح کا فائٹر نہیں ہے بلکہ نانا کی طرح کا فائٹر ہے اس لئے کسی پاپڑ منڈی والا پرائشچت کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ ادھر 35غیر ملکی اکائونٹس کی دریافت کرنے والے اینکر نے بتایا ہے کہ بلاول اب نہیں چلے گا‘ اب اس پر نیب کے ریفرنس کھلیں گے۔ اور بلاول نے منجملہ دیگر گفتگو ہائے سنگین‘ ایک سخت بات اسی سیاسی مینجمنٹ بارے میں بھی کی اور کہا کہ کالعدم پارٹیوں کو جن کے لوگ بقول ان کے دوسرے ملکوں میں جا کر دہشت گردی کرتے ہیں۔ ہمارے خلاف سیاسی مینجمنٹ کے طور پر استعمال کیا گیا تاکہ ہمیں ہرایا جا سکے۔ ان کی اس بات سے کامل اتفاق ممکن نہیں۔ ان جماعتوں کو پیپلز پارٹی کے خلاف محض جزوی طور پر استعمال کیا گیا۔ دو چار سیٹوں کا فرق ہی پڑا ہو گا۔ اصل بلکہ 80فیصد استعمال تو مسلم لیگ ن کے خلاف ہوا‘ پندرہ سولہ فیصد متحدہ کے خلاف۔ پیپلز پارٹی کے حصے میں یہ تبرک چار پانچ فیصد ہی آیا۔ ٭٭٭٭٭ متحدہ کی کم سے کم بارہ سیٹیں اس مینجمنٹ کے تحت ’’ہتھیائی‘‘ گئیں جس روز الیکشن ہوئے‘ کراچی کے ایک عزیز ہمارے ہاں مہمان تھے۔ تعلق ان کا متحدہ سے تھا نہ مسلم لیگ سے بلکہ ایک مذہبی جماعت سے تھا۔ وہ بتا رہے تھے کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بنک کراچی کی چند اشراف کالونیوں مثلاً بحریہ‘ ڈیفنس وغیرہ کے سوا کہیں بھی نہیں ہے۔ شاید ایک آدھ سیٹ جیت جائے۔ الیکشن کے نتائج آئے تو ان کا منہ کھلے کا کھلا‘ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ کافی دیر نشانے میں رہے‘ پھر حیران ہو کر بولے‘ خدا ہی جانے کیا طلسمات ہے۔ عرض کیا طلسمات نہیں‘ زندہ طلسمات کے لئے بلکہ معجزہ کیلئے سیاسی مینجمنٹ کا معجزہ۔ تاریخ کا ستم دیکھیے۔ کراچی کی بلا شرکت غیرے مقبول ترین جماعت متحدہ کے ساتھ یہ ہاتھ ہوا اور یہ وہی متحدہ ہے جو کئی عشرے پہلے ایسے ہی سیاسی مینجمنٹ کے نتیجے میں اٹھی تھی اور چھا گئی تھی۔ ٭٭٭٭٭ تفصیل اس ستم کی یہ ہے کہ ضیاء الحق کا وسیع تر قومی مفاد یہ تھا کہ کراچی میں بالخصوص ‘ اندرون سندھ بالعموم سندھی مہاجر جنگ کرائی جائے۔ کراچی میں جماعت اسلامی اور جے یو پی کا غلبہ تھا۔ ان کے ہوتے ہوئے۔ یہ لڑائی ممکن ہی نہیں تھی۔ ضیاء الحق اور ان کے بقول ان کے رفقائے کار کو جماعت اسلامی سے دشمنی تھی نہ جے یو پی سے لیکن یہ دونوں جماعتیں وسیع تر قومی مفاد کے راستے کا کانٹا بنی ہوئی تھیں۔ چنانچہ سیاسی مینجمنٹ کے ذریعے ان کانٹوں کو ہٹا دیا گیا۔ سندھی مہاجر خلیج نے کراچی کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔ سندھی بلوچ ایک طرف۔ مہاجر دوسری طرف۔ ایم کیو ایم نے دونوں جماعتوں کو شہر بدر کر دیا۔ بعدازاں وسیع تر قومی مفاد کے لئے پٹھان مہاجر فسادات کرائے گئے اور اس کے بعد چل سو چل۔ ٭٭٭٭٭ حالیہ مینجمنٹ کا نشانہ اصل میں مسلم لیگ تھی اور اس پر کئی طرح کا توپ خانہ استعمال ہوا۔ جنوبی پنجاب کا احساس محرومی بگولہ بن کر اٹھا اور بعداز حصول مقصد پانی کا بلبلہ بن کر غائب ہو گیا۔ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا آخری روز گزرنے کے بعد مسلم لیگ کے متعدد امیدواروں نے وسیع تر قومی مفاد کی خاطر کاغذات واپس لے لئے۔ اس سے قبل نواز شریف کو تین چار بار نااہل قرار دیا جا چکا تھا اور پارٹی صدارت بھی ان سے چھین لی گئی تھی۔ بلاول کا دعویٰ درست تو ہے لیکن محض چار پانچ بٹہ سو کی حد تک۔ ٭٭٭٭٭