سنجیدگی اور سمجھداری کا اتنا تعلق مہ وسال سے نہیں جتنا تعلیم و تربیت اور شخصیت کے طبعی میلان سے ہے۔ انتخابی مہم کی شعلہ بیانی، دشنام طرازی اور الزام تراشی کی گرم بازاری کے دوران بھی بلاول بھٹو زرداری نے اپنی پہچان الگ رکھی۔ بلاول اس عرصے میں اپنے بارے میں یہ تاثر قائم کرنے میں کامیاب رہے کہ وہ ایک مغلوب الغضب شخص نہیں اور نہ ہی انہیں دوسروں کی کردار کشی میں زیادہ دلچسپی ہے۔ موجودہ ملکی حالات کے حوالے سے گزشتہ روز بلاول بھٹو نے گلگت میں ایک پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے کئی فکر انگیز باتیں کیں، کہیں پورا سچ اور کہیں ادھورا سچ بولا۔ بلاول بھٹو نے اپنی والدہ مرحومہ بینظیر بھٹو اور نانا مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی پیروی کرتے ہوئے آکسفورڈ یونیورسٹی انگلستان کا انتخاب کیا تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی انگلش سپیکنگ دنیا کی قدیم ترین تعلیم گاہ ہے۔ آج بھی یہ یونیورسٹی عالمی رینکنگ میں کبھی پہلے اور کبھی دوسرے نمبر پر ہوتی ہے۔ 2007ء میں بلاول یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ داخلے کے چند ماہ بعد ہی بے نظیر بھٹو کو گولی مار دی گئی۔ صرف انیس برس کی عمر میں بلاول کے سر پر پیپلزپارٹی کی چیئرمینی کا تاج رکھ دیا گیا۔ بلاول نے 2010ء میں اپنی تعلیم مکمل کی اور پھر 2010ء میں وہ عملاً اپنی پارٹی کی قیادت کے لیے میدان سیاست میں جوش و خروش سے اترے۔ بلاول بھٹو نے اپنی ننھیالی روایت کے مطابق یونیورسٹی میں تاریخ اور سیاست کے مضامین کو مطالعے کے لیے منتخب کیا تھا۔ بڑی بڑی درس گاہیں اور دانش گاہیں کسی ٹیکنالوجی سے معلومات طالب علم کے ذہن میں نہیں انڈیلتیں۔ وہ طالب علم کے ذہن میں علم کی عظمت کا نقش اجاگر کرتی اور اسے انسان کے اندر لامحدود امکانات کی موجودگی سے آشنا کرتی ہیں۔ بلاول بھٹو نے گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ان سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک پروفیشنل خارجہ پالیسی اختیار کریں۔ بیرون ملک وہ وفاق کی نمائندگی کرنے جاتے ہیں نہ کہ اپوزیشن کی کردار کشی کے لیے دورے کرتے ہیں۔ ہم نے عمران خان کے وژن سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں مگر مجھے نہیں معلوم کہ ان کے ذہن میں سیاست کا کیا نقشہ موجود ہے۔ خان صاحب کو ادراک ہونا چاہیے کہ اپوزیشن کے بغیر سیاست جمہوریت نہیں آمریت ہوتی ہے۔ پاکستانی سیاست، معیشت اور معاشرت کی بے شمار ایسی خوبیاں ہیں جو کم کم ہی دوسرے ملکوں میں پائی جاتی ہیں مگر نہ جانے ہم نے فرقہ ملامتیہ کا مسلک کیوں اپنا رکھا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سیاسی رہنمائوں نے اپنے مناصب سے فائدہ اٹھا کر ملکی دولت کو خوب لوٹا ہے جس کا ضرور احتساب ہونا چاہیے۔ یہ کام وزیراعظم کا نہیں محتسب اعلیٰ کا ہے۔ اپوزیشن نے تو ابھی حزب اختلاف کے مخصوص ہتھکنڈوں کو استعمال کرنا ہی شروع نہیں کیا مگر تحریک انصاف نے اپنی اپوزیشن خود ہی شروع کردی ہے۔ ہم بھی احباب اور عزیز و اقارب کی جس محفل میں جاتے ہیں سبھی پوچھتے ہیں کہ آپ نے تو تحریک انصاف کے حوالے سے امیدوں کے شیش محل تعمیر کر رکھے تھے۔ کہیے تو اب ان محلات کا کیا ہوا۔ ہم عرض کرتے ہیں کہ ذرا صبر کیجئے کہ ابھی تو 100 دن بھی پورے نہیں ہوئے جواب ملتا ہے حضور! ان سو دنوں میں ہی مہنگائی نے ہماری کمر دوہری کردی ہے، پٹرول مہنگا، بجلی مہنگی، گیس مہنگی اور دنیا جہان کی ہر شے مہنگی۔ بلاول بھٹو نے بھی مہنگائی اور معاشی صورت حال کی ابتری پر بڑی شدید تنقید کی۔ ان کا کہنا ہے کہ تجاوزات ہٹانے کے نام پر لوگوں کی دوکانیں اور ان کے روزگار کے ٹھییّ گرائے جا رہے ہیں۔ مشکل فیصلے کرنے سے پہلے غریب لوگوں کا خیال کرنا چاہیے۔ پانچ پانچ برس سے کنٹریکٹ پر ملازمتیں کرنے والوں کو ملازمتوں سے یک بینی و دوگوش فارغ کیا جارہا ہے۔خان صاحب تو روزگار دینے آئے ہیں نہ کہ روزگار چھیننے۔ خان صاحب اپوزیشن کی گوشمالی کے بجائے معیشت کی بحالی و بہتری کو اپنی اولین ترجیح قرار دیں اور ان غریبوں سے مزید قربانی نہ مانگیں کہ جو پہلے ہی بدترین مہنگائی اور ناانصافی کی قربان گاہ پر قربان ہو چکے ہیں۔ بلاول بھٹو نے ایک اور اہم بات کی کہ ہمیں ذوالفقار علی بھٹو جیسے لیڈر ملے جو ملک کے مفاد اور غریبوں کے لیے سوچ سکتے تھے مگر غیر جمہوری قوتوں نے انہیں رستے سے ہٹا دیا۔ یہاں بلاول نے ادھورا سچ بولا ہے یا انہیں ابھی ادھورا سچ ہی معلوم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو نہایت ذہین و فطین سیاست دان تھے۔ وہ عوامی نفسیات سے نہ صرف آگاہ تھے بلکہ عوام کی رگ رگ سے واقف تھے اور ان کے دکھ سکھ کو سمجھتے تھے۔ وہ لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق ان کی سطح پر آ کر بات کرتے تھے۔ تاریخ و سیاست کے طالب علم کی حیثیت سے قوموں کا عروج و زوال بطور خاص بلاول بھٹو کے مطالعے کا محور رہا ہوگا۔ بلاول کو چاہیے کہ وہ اپنے نانا کے طور پر نہیں بلکہ ایک مقبول سیاست دان کے عروج و زوال کا بنظر عمیق جائزہ لیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پہلے تقریباً نو دس برس ایک فوجی آمر کا دست راست بن کرگزارے پھر انتخابی کامیابی کے بعد انہوں نے اپوزیشن کے طور پر متحدہ پاکستان کی اسمبلی میں بیٹھنے کے بجائے پاکستان کو دو لخت کرنے والی قوتوں کا ساتھ دینے کو ترجیح دی۔ بھٹو کو 1972ء میں اقتدار کلی ملا جو آج تک پاکستان میں کسی سول یا فوجی حکمران کو نہ ملا تھا۔ یہ وہ سنہری موقع تھا جس سے فائدہ اٹھا کر بھٹو صاحب ملک میں مکمل جمہوری کلچر رائج کرسکتے تھے۔ ساری اپوزیشن جماعتیں بھی ان کی حمایت کر رہی تھیں۔ 1973ء کا متفقہ اسلامی و جمہوری دستور بنوا کر اور قادیانی مسئلہ حل کر کے وہ مقبولیت کی معراج پر پہنچ گئے مگر بھٹو نے اقتدار کلی اور مقبولیت کے ذریعے اپنی جمہوری آمریت مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا اور وہ عوامی راستہ چھوڑ کر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو بھی اپنی پارٹی میں لے آئے اور انہوں نے 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کا سہارا لیا۔ اس غیر جمہوری رویے کا بالآخر خود انہیں ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا اور انہیں پھانسی کے پھندے تک جانا پڑا۔ سیاست کے ایک غیرجانبدار طالب علم کی حیثیت سے بلاول کو بھٹو کے عروج و زوال کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ بلاول بھٹو زرداری نے نعرہ مستانہ بلند کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہم نے جنرل ضیاء اور پرویز مشرف جیسے آمروں کا مقابلہ کیا۔ ہم عمران خان جیسی کٹھ پتلی کا بھی بھرپور مقابلہ کریں گے اور جہاں عمران خان بیرونی دنیا جا کر اپوزیشن کی کردار کشی کرتے ہیں وہاں ہم بھی باہر جا کر بتائیں گے کہ عمران خان چوری کے ووٹوں سے اقتدار میں آئے ہیں۔ بلاول بھٹو نے اپنی پریس کانفرنس میں میڈیا کی آزادی، انسانی حقوق کی سربلندی، انصاف کے اداروں کی مضبوطی اور جمہوری حقوق کے لیے جدوجہد کرنے اور اس کے لیے تحریک چلانے اور اس کی قیادت کرنے کا نعرہ بھی بلند کیا ہے۔ بلاول نے غالباً سوچ سمجھ کر اپنے سیاسی راستے اپنے والد گرامی آصف علی زرداری سے جدا کرلیے ہیں اور اس لیے انہوں نے کبھی اپنے و الد یا اپنی پھوپھی کی کرپشن کا دفاع نہیں کیا۔ ایسا کر کے بلاول نے جواں عمری میں بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے۔ اس ڈائریکشن سے ہی اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اب بلاول کی اڑان الگ ہو گی۔