بلوچستان کے علاقے مچھ میں دہشت گردوں نے 11 کان کنوں کو اغوا کے بعد بے رحمی سے قتل کردیا ہے۔ مشکوک پس منظر والی دہشت گرد تنظیم داعش نے واقعہ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ قتل ہونے والے مزدوروں کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے‘ واقعہ کی اطلاع پر ہزارہ برادری نے کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔ بلوچستان میں دہشت گرد گروہ پچھلے دو ماہ سے اپنے حملے تیز کر رہے ہیں۔ علیحدگی پسند تنظیمیں اور فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے والے گروہ بلوچستان کی سرزمین پر بدامنی پھیلانے میں سرگرم رہے ہیں۔ داعش کی طرف سے مقامی آبادی میں خوف پھیلانے‘ معاشی مفادات پر حملہ کرنے اور مقامی انتظامیہ کی ناکامی کا تاثر پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی ابھارنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سکیورٹی ادارے شہریوں کو دہشت گرد عناصر سے بچانے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں۔ بلوچستان کا معاملہ گھمبیر ہے۔ ایک عرصے تک بلوچستان کے امن کو ان قوتوں سے خطرہ رہا ہے جو پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتی ہیں۔ بلوچستان پہلی بار ایک صوبے کے طورپر مملکت خدداد پاکستان کے نقشے میں اس وقت ابھرا جب ون یونٹ ختم کر کے ریاست کو چار صوبوں میں بانٹا گیا۔ آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا یہ صوبہ پاکستان کے مجموعی رقبے کا 40 فیصد ہے۔ سینکڑوں کلومیٹر تک پھیلے ایسے علاقے بھی بلوچستان کا حصہ ہیں جہاں کوئی ایک خاندان آباد نہیں۔ وسیع علاقے اور کم آبادی کی وجہ سے ریاست کو ہر شہری تک بنیادی سہولیات کی فراہمی چیلنج رہی ہے۔ مقامی آبادی کا بڑا حصہ قبائلی سرداروں کے تابع ہے۔ 73 برس گزرنے کے باوجود حکومتیں قبائلی جبر کی گرفت ختم کرسکیں نہ شہریوں کو یہ احساس دلا سکیں کہ ریاست ان کے بنیادی حقوق کی ضامن ہے۔ بلوچستان کے اس احساس محرومی کو بھارت سمیت بہت سے ممالک نے استعمال کیا ہے۔ ہزارہ برادری کے لوگوں کو ہدف بنانے کا سلسلہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوا۔ان حملوں کے باعث اب تک ہزارہ افراد کی بڑی تعداد گذشتہ چند برسوں میں متعدد بار متاثر ہوئی ہے۔غیر محفوظ ہونے کی وجہ سے ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بہت بڑی تعداد کو کوئٹہ سے دیگر صوبوں کے علاوہ بیرون ملک بھی نقل مکانی کرنا پڑی۔کوئٹہ شہر میں ہزارہ افراد کو زیادہ تر نقل و حمل کے دوران نشانہ بنایا جاتا رہا جن میں وہ سبزی فروش بھی تھے جو ہزارہ ٹاؤن اور مری آباد سے سبزی منڈی جاتے اور وہاں سے واپس آتے۔2017کے دوران ہزارہبرادری سے تعلق رکھنے والے افراد پر یہ پہلا بڑا حملہ تھا۔ اس سے قبل آخری حملہ کوئٹہ شہر کے اندر دکانوں میں ہزارہ تاجروں پر ہوا تھا جس کے بعد نہ صرف شہر کے مختلف علاقوں میں دھرنے دیئے گئے بلکہ حقوق انسانی کی معروف کارکن جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ نے تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کی تھی۔ان دھرنوں کے باعث آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کوئٹہ کا دورہ کیا اور ان سے ملاقات کے بعد دھرنے ختم کیے گئے تھے۔ہزارہ برادری کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کے لوگوں کے پاس اختیارات نہیں اس لیے ان کے ساتھ مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ان پالیسیوں میں تبدیلی لائی جائے جن کی وجہ سے ان کے قبیلے کے علاوہ دیگر لوگ شدت پسندی کے واقعات کا ایندھن بن رہے ہیں جبکہ ان کو ایسی ضمانت دی جائے تاکہ آئندہ ان پر ایسے حملے نہ ہوں۔ ہزارہ افراد کے قتل کو پاکستانی سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ نظر انداز کیا۔ جانے کیوں بلوچستان کی وہ جماعتیں جو مرکزی دھارے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں ان کی حکمت عملی فعال دکھائی نہیں دی۔سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی نے ہمدردی جتائی لیکن زیادہ تر لوگوں نے جنازے نہیں دیکھے صِرف یہ شکایت جتائی کہ اِن ہزاروں نے ہماری سڑکیں روک کر ٹریفک کا نظام تباہ کر دیا ہے۔بلوچستان کے لوگوں اور ان کے مسائل سے وفاقی جماعتوں کی لاتعلقی نے حکومت کی مشکلات میں اضافہ کیا ۔اس لاتعلقی نے صورت حال کو اس سطح پر پہنچا دیا کہ مدت سے ہزارہ برادری سیاسی جماعتوں ، حکومت اور مقامی با اثر حلقوں کی بجائے فوج سے مدد کی اپیل کرتی نظر آتی ہے، حالیہ واقعہ میں جو لوگ قتل ہوئے ان کی برادری اور مسلک کی شناخت کو نمایاں کر کے دیکھا جا رہا ہے ،ان زاویوں سے ایسے واقعات کا تجزیہ حالات کی ابتری پیش کرتا ہے۔ یہ درست ہے کہ بھارت کھلے عام بلوچستان میں کارروائیوں کی دھمکی دیتا ہے مگر عالمی برادری اس کا نوٹس نہیں لیتی ، یہ بھی درست ہے کہ ہمارے انٹیلی جنس نظام‘ کائونٹر ٹیررازم نظام اور مقامی آبادی کے ساتھ بھروسے پر مشتمل تعلقات کی سطح میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ سکیورٹی اداروں کو سی پیک کے علاوہ دوسرے قومی مفادات کیتحفظ کے لیے بھی بروئے کار آنا چاہیے۔ دشمن عناصر نے جن گمراہ کن اور فسادی نظریات کو پھیلانے کا کام شروع کر رکھا ہے دراصل وہی دہشت گردوں کے لیے مقامی حمایت کا سبب بنتا ہے۔ بلوچستان ایک ترقی پذیر علاقے کی حیثیت سے عالمی توجہ حاصل کررہا ہے۔ ان حالات میں دہشت گردوں کا آزادانہ سرگرم ہونا تشویش کا باعث ہے۔ ضروری ہے کہ قتل ہونے والے مزدوروں کے خاندانوں سے حکومت اور سکیورٹی ادارے ہمدردی کا اظہار کرنے کو کافی نہ سمجھیں بلکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا سوفیصد انسداد یقینی بنایا جائے۔