بلوچستان میں اتحادی اراکین کے مابین اختلافات کی اطلاعات ہیں۔ اگرچہ ان اختلافات کی نوعیت اس نوع کی نہیں کہ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے میں حالات تشویشناک صورت اختیار کر سکیں تاہم معمولی اختلافات بسا اوقات وہ رخ اختیار کرلیتے ہیں جس سے عمومی استحکام متاثر ہونے لگتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ سپیکر بلوچستان اسمبلی قدوس بزنجو اور صوبائی وزیر بلدیات سردار صالح بھوتانی کی قیادت میں باغی گروپ نے ضروری ہوم ورک مکمل کر لیا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعلیٰ جام کمال کے رفقا صورت حال پر مکمل کنٹرول کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ ان ملاقاتوں کو حفاظتی تدابیر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بلوچستان قومی ذرائع ابلاغ کی اس توجہ سے محروم ہے جس کا وہ مستحق ہے۔ بلوچستان کی بجا طور پر ایک معاشی اور اقتصادی حیثیت ہے جسے عمومی طور پر موضوع گفتگو رکھا جاتا ہے۔ مگر اس صوبے میں جمہوری عمل کے ارتقاء کے لئے قومی اداروں اور قومی میڈیا کو جس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اب تک وہ احساس مفقود ہے۔ ملک کے باقی صوبوں میں قومی جماعتیں اپنا مضبوط تنظیمی ڈھانچہ قائم کر چکی ہیں۔ قومی جماعتیں علاقائی امور کو اپنے ایجنڈے کا حصہ بناتی ہیں۔ مگر اس ایجنڈے کو قومی سطح سے ہم آہنگ کر کے قومی سوچ کو فروغ دیتی ہیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ علاقائی اور قومی سوچ میں مکالمہ جاری رہتا ہے۔ اس مکالمے میں ان محرومیوں کا تذکرہ ہوتا ہے جو وفاقی اکائیاں محسوس کرتی ہیں۔ مکالمے میں انتظامی ڈھانچے اور ترقیاتی معاملات کی بات شامل ہوتی ہے۔ یہ مکالمہ متوازن رائے رکھنے والی نئی قیادت پیدا کرتا ہے۔ بلوچستان سے بڑے نامور سیاسی رہنما قومی سطح پر اپنا فعال کردار ادا کرتے رہے ہیں لیکن وفاقی جماعتوں میں بلوچستان کے حوالے سے کچھ لاتعلقی کے چلن نے مقامی سطح کے گروپوں اور علاقائی جماعتوں کو موقع دیا کہ وہ صوبے کے لوگوں کی آواز بنیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی کا قیام ایسے ہی حالات میں ہوا۔ مناسب بات یہ ہے کہ وفاق میں برسر اقتدار پاکستان تحریک انصاف پارٹی کا قیام ایسے ہی حالات میں ہوا۔ مناسب بات یہ ہے کہ وفاق میں برسر اقتدار پاکستان تحریک انصاف سمیت کسی وفاقی جماعت نے یہ کوشش نہیں کی کہ بلوچستان میں اپنی پسند کی حکومت بنانے کے لئے غیر جمہوری عمل کی حوصلہ افزائی ہوتی۔ خصوصاً تحریک انصاف اگر گزشتہ حکومتوں کے نقش قدم پر چلتی تو اپنی چند نشستوں کی بنیاد پر دوسری جماعتوں کے اراکین خرید لیتی۔ ایسا نہ کر کے ایک اچھی مثال قائم کی گئی اور اکثریتی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی گئی۔ بلوچستان نسلی اور فرقہ وارانہ کشیدگی کا شکار رہا ہے۔ ایسے واقعات کبھی کبھار اب بھی رونما ہو جاتے ہیں۔ مگر ان کی شدت پہلے جیسی نہیں رہی۔ ان مسائل کا سامنا کرنے کے لئے حکومت ہمیشہ قابل بھروسہ انتظامات کرنے سے قاصر رہی۔ یہ پہلی بار نہیں کہ حکمران اتحاد میں اختلافات کی خبریں آ رہی ہیں۔ سابق دور میں نواب ثناء اللہ زہری مسلم لیگ ن کے وزیر اعلیٰ تھے۔ ان کی صوبائی حکومت جب اپنی آئینی مدت پوری کرنے والی تھی تو ان کی اپنی جماعت کے اراکین نے ان کے خلاف بغاوت کر دی اور ثناء اللہ زہری کو وزارت اعلیٰ سے محروم ہونا پڑا۔ ان کے رخصت ہونے کے بعد عبدالقدوس بزنجو بلوچستان کے نئے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ اس وقت کہا گیا کہ بلوچستان میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی اس وقت سینٹ کے انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لئے بروئے کار لائی گئی۔ صوبائی اسمبلی نے عبدالقدوس بزنجو پر اعتماد کا اظہار کیا اور وہ ڈپٹی سپیکر سے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ موجودہ وزیر اعلیٰ جام کمال کے متعلق بعض پی ٹی آئی اراکین شکایت کرتے رہے ہیں۔ کچھ ہفتے قبل بلوچستان میں تحریک انصاف کے صدر سردار یار محمد رند نے جام کمال کے متعلق جب وزیر اعظم سے شکایت کی تو وزیر اعظم عمران خان نے انہیں شکایات کا سلسلہ بند کرنے کی ہدایت کی۔ بلوچستان کی سیاست میں آج بھی قبائلی سرداروں کا عمل دخل ہے۔ بڑے قبائل بڑے عہدے کے طلب گار ہوتے ہیں۔ بلوچستان میں تعمیر و ترقی کا نیا دور شروع ہو رہا ہے۔ انفراسٹرکچر پر کام لگ بھگ مکمل ہو رہا ہے۔ اب گوادر اور دیگر علاقوں میں صنعتی و اقتصادی زون تعمیر ہو رہے ہیں۔ صوبے کو صحت‘ تعلیم اور روزگار کے نئے مواقع میسر آ رہے ہیں۔ عبدالقدوس بزنجو امن و امان کے مسائل سے دوچار ضلع آواران سے منتخب ہوئے ہیں۔ ان کی خدمات سے انکار ممکن نہیں لیکن صوبے میں معاشی اور سیاسی استحکام جن نئے راستوں پر ہموار سفر کر رہا ہے ‘ ذرا سی بے احتیاطی اس سارے عمل کو منتشر کر سکتی ہے۔ بلوچستان میں قیام امن کی خاطر پاک فوج نے مسلسل قربانیاں دی ہیں۔ بھارت نے یہاں حالات خراب کرنے کے لئے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ کلبھوشن جادیو جیسا جاسوس پکڑا گیا مگر جانے کتنے بھارتی ایجنٹ اب بھی بلوچستان کا امن برباد کرنے کے لئے سرگرم ہیں۔ فوج کی کوششوں سے یہاں سیاسی اور جمہوری عمل کو موقع ملا ہے کہ وہ بلوچستان کے عوام کی محرومیاں دور کرنے کے لئے کام کرے۔ اس موقع کو معمولی ذاتی اختلافات کی نذر کر دیا گیا تو ملک و قوم کے لئے یہ اچھا نہیں ہو گا۔ وزیر اعظم اگر اس معاملے میں دلچسپی لیں اور فریقین کی ایک دوسرے سے شکایات رفع کرنے کا بندوبست کر سکیں تو یہ مصالحت کاری قومی خدمت شمار ہو گی۔