چند سال قبل اسلام آباد سے لاہور براستہ موٹر وے ایک سفر کے دوران بلوچستان کے ایک سابق سینیٹر کے ہمراہ موجود تھا ،گفتگو کا آغاز موٹر وے کے سفر اور لاہور میں داخل ہوتے ہی اس شہر کی ترقی کودیکھ کر میں نے اپنے صوبے کے اس رہنما سے یہ سوال کیا کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ سے قبل ہمارا اور آپکا وطیرہ رہا کہ ہم روتے رہتے تھے کہ پنجاب کھا گیا وفاق نے حصہ پورا نہیں دیا لیکن ساتویں این ایف سی ایوارڈکے بعد تو بلوچستان کے سارے شکوے شکایتیں دور ہوگئیں ہیں۔ اب پیسے کی فراوانی ہے اب ہمارے صوبے میں ترقی کا پہیہ کیوں نہیں چل رہا ہے۔ وہ گھاگ سیاستدان تھے فوراً جوا ب دیا کہ بلوچستان کی پارلیمانی سیاست میں جب تک سردار نواب موجود ہیں اور جب تک اتحادی حکومتیں بنتی رہینگی اس وقت تک بلوچستان ترقی نہیں کریگا اور میگا پراجیکٹس نہیں بن سکتے کیونکہ کوئی بھی وزیر اعلٰی کوئی وژن لیکر نہیں آتا اوراسہی لئے کوئی میگا پراجیکٹس شروع نہیں ہوتے کیونکہ وزیر اعلٰی کوئی بھی ہو اتحادیو ں بالخصوص ان سرداروں نوابوں کے شکنجے میں گھرا رہتا ہے اگر اتحادی ناراض ہوئے تو کرسی یا عہدے کو خطرہ ہوگا اگر سردار نوابوں کو مطمئن نہیں کیا تب بھی حکومت کرنا آسان نہیں ہوگا۔ لاہور پہنچ کر جس شخصیت سے ملاقات تھی وہ کچھ عرصہ قبل بلوچستان میں چیف سیکریٹری تعینا ت رہ چکے تھے۔ ان دنوں وہ پنجاب کے چیف سیکریٹری تعینات تھے ملاقات کے آغاز میں میزبان اور شریک سفر کے کام کی گفتگو کے بعد میں نے اس سابق بیوروکریٹ سے پوچھا آپ بلوچستان میں بھی اسہی عہدے پر رہے وہاں آپ ناکام کیوں ہوئے اور یہاں کامیاب کیوں ہیں۔ وہ بغیر لگی لپٹی رکھے بولے نمبر ایک بلوچستان کی پارلیمانی سیاست کے لیڈرز اور قائد ایوان ایسی ترقی کا وژن نہیں رکھتے اور نمبر دو کرپشن کا ناسور کمیشن کے پرسنٹیج کی وجہ سے بلوچستان میں کوئی میگا پراجیکٹ یا شروع نہیں ہوتا اور اگرشروع ہوتا ہے تو اتنا طویل ہوجاتا ہے کہ اسکی تکمیل تک اسکی آدھی افادیت ختم ہوچکی ہوتی ہے جب ہم نے ان سے دلیل مانگی تو انہوں نے لاہور میٹرو بس کے آغاز اور اسکی تکمیل کی کہانی سنائی کے کیسے یہ مرکزی خیال آیا اور کیسے چند دنوں میں ملک کی چند بڑی فرمز میں سے ایک کا انتخاب کرکے کام کا آغاز ہوا اور مقررہ مدت پر اسے مکمل کردیا گیا۔ یہاں میرے سوال پر وہ مسکرائے اور کہاں اس میں آپ پانچ فیصد رقم کرپشن کی نظر ہونے کا یقین رکھیں لیکن اگر یہی منصوبہ بلوچستان میں شروع ہوا ہوتا تو اس میں سے نصف کرپشن کی نذر ہوجاتا جسکی وجہ سے منصوبے کی تکمیل کی مدت بڑھنے سے اس منصوبے کی لاگت بھی بڑھتی اور افادیت بھی گرتی رہتی اس گفتگو کے بعد جب بلوچستان کا جائزہ لیا جائے تو کوئی حکومت ماسوائے نیشنل پارتی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے تربت ٹائون پراجیکٹ کے یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ انہوں نے کوئی میگا پراجیکٹ مقررہ وقت یا اس سے کچھ دیر بعد مکمل کیا ہو ۔ موجود محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کابنیادی کام صوبے کی شارٹ مڈاور لانگ ٹرم کی پلاننگ کرنا ہے۔ بلوچستان کے پچھلے پندرہ سالوں میں دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جس وقت بجٹ بن رہا ہوتا ہے ،پورے صوبے کا ترقیاتی بجٹ کا نصف چند حلقوں کیلئے ونڈ کھائو کھنڈ کھائو کی مصداق تقسیم ہوجاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اگر اس تقسیم کے نتیجے میں بھی فنڈز صرف کاغذات کے بجائے زمین پر خرچ ہوں اور کم از کم ان چند حلقوں میں شارٹ مڈ اور لانگ ٹرم پلاننگ کے ساتھ ہر پارلیمانی دور میں ایک وزیر اعلیٰ اور چند وزراء نے حقیقی کام کئے ہوتے تو ان پندرہ سالوں میں بلوچستان کے نصف اضلاع یا حلقے ترقی کرجاتے کیونکہ کے اگر پچھلے پندرہ سالوں میں بنائے جانے والے وزراء اعلیٰ صرف تین وزراء کے ہمراہ ترقیاتی کاموں پر توجہ دیتے تو تیس سے زائد اضلاع والے صوبے کے نصف میں ترقی کا سفر بہت بہتر انداز میں چل رہا ہوتا، تاہم ایسا نہ ہوسکا ساتویں این ایف سی ایورڈ کے بعد ملنے والے اضافی فنڈز بندر بانٹ کی نذر ہوئے اور آج بھی بلوچستان میں کوئی میگا پراجیکٹ شروع نہیں ہوسکا ۔ بلوچستان میں ترقی کے سفر کے آغاز کیلئے سب سے پہلے بڑے منصوبے ترتیب دینے کی ضرورت ہے جنہیں ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کی سطح پر مساوی انداز میں شروع کیا جائے تربت کی طرح ماڈل ٹائون پلاننگ کی جائے اس ماڈل ٹائون میں ایک اسٹیٹ آ ف دی آرٹ اسکول رکھا جائے ایک پچاس بستروں کا مکمل ہسپتال اور اس ڈویژنل ہیڈ کوارٹر میں پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے منصوبے شامل کئے جائیں اگلے پانچ سالوں میں بلوچستان میں ترقی کا سفر شروع بھی ہوگا اور ترقی نظر بھی آئیگی پہلے پانچ سالوں میں پی ایس ڈی اپی کو ڈویژنل لیول پر اور اگلے پانچ سالوں میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر تک وسعت دیجائے تو اس خیال کی کامیابی کیلئے کرپشن کی روک تھام کیلئے حال ہی میں منظور کیا جانے والا ای ٹینڈرنگ کا منصوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر اسے کامیابی سے چلایا جائے تو کرپشن میں بڑی حد تک کمی واقع ہوسکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو بلوچستان میں شروع ہونے والا ترقی کا سفر تیزی سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہیگا۔ تاہم راقم کی معلومات کے مطابق اس ای ٹینڈرنگ کے نظام کو تکنیکی طور پر ناکام بنانے اور اس فیصلے کو رول بیک کرنے کیلئے چند وزراء اور افسر شاہی نے سمریوں کی تیاری شروع کردی ہے اگر یہ افراد چاہے وہ وزراء ہوں یا سرکاری بابو اپنے ان عزائم میں کامیاب ہوئے تو ترقی کے سفر کو شدید دھچکا لگے گا اسلئے عوام کی زمے داری بنتی ہے کہ اس نظام کی کامیابی کیلئے حکومت اور متعلقہ محکموں پر گہری نگاہ رکھیں تاکہ ای ٹینڈرنگ کے زریعے کسی منصوبے کو آغاز سے قبل ناکام بنانے یا فیصلہ واپس لینے سے بچائیں ۔ ٭٭٭٭٭