حالیہ دنوں امریکہ نے دنیا بھر میں مذہبی آزادی کو لاحق خطرات سے متعلق رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ میں نریندر مودی کے دور میں مذہبی دہشت گردی کو عروج پر بتایا گیا ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ بھارت میں دودھ، دہی، چمڑے اور گوشت کے کاروبار سے منسلک 10 افراد کو گزشتہ ایک سال میں قتل کیا گیا۔ انتہا پسند ہندو سرعام غیر ہندوئوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔گائے رکھشا کے نام پر پورے بھارت کی ایک تہائی ریاستوں میں گائے ذبح کرنے پر پابندی ہے۔انتہا پسند غیر ہندوئوں کو جبراً ہندو بنا رہے ہیں اور حکمران جماعت بی جے پی کے لیڈر کھلے عام ہندو توا کا پرچار کرتے ہیں۔ چند ماہ قبل اقوام متحدہ نے بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ابتر صورت حال پر تفصیلی رپورٹ جاری کی تھی۔ بھارت عالمی سیاست میں امریکہ کا اتحادی ہے تاہم بھارت میں غیر ہندوئوں کے خلاف بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات پر اب عالمی برادری اپنی خاموشی توڑتی دکھائی دیتی ہے۔ بھارت آئینی طورپر ایک سیکولر ریاست ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کے تمام باشندوں کو مذہبی، نسلی یا کسی اور امتیاز کے بغیر مساوی حقوق حاصل ہیں۔ بھارتی آئین کی شق 25 اور 28 اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ کسی شہری کو اس کے مذہب یا عقائد کی وجہ سے امتیازی رویے کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔ اس لحاظ سے بھارت کا ہر شہری بغیر کسی رکاوٹ اور جبر کے اپنے عقائد کے مطابق زندگی بسر کرسکتا ہے۔ بھارت کی 29 ریاستوں میں سے 9 ریاستوں میں مذہبی مباحث پر پابندی ہے۔ ایسے قوانین کو اکثریتی ہندو آبادی غیر ہندو اقلیتوں پر مظالم کے جواز کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ متعدد غیر سرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ جب کبھی اقلیتوں پر جم غفیر نے حملہ کیا ریاست اور اس کے ادارے انہیں تحفظ فراہم کر پائے اور نہ صورت حال کو قابو میں کر سکے۔ گزشتہ برس نومبر سے لے کر اب تک بھارت میں انتہا پسند مجمع کے 18 حملے رپورٹ ہوئے ہیں جن میں متعدد افراد مارے گئے۔ 22 جون کو اترپردیش میں مویشیوں کے ایک بیوپاری کو تفتیش کے لیے مقامی تھانے میں لایا گیا جہاں وہ پولیس تشدد سے جاں بحق ہوگیا۔ ایک دوسرے واقعہ میں جھاڑ کھنڈ کی عدالت نے بی جے پی کے مقامی رہنما سمیت 11 افراد کوگوشت کا کاروبار کرنے والے مسلمان کو قتل کرنے پر سزائیں سنائیں۔ گزشتہ برس جولائی میں بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ گائو رکھشا کے نام پر تشدد کے واقعات ناقابل قبول ہیں۔ رواں برس جموں و کشمیر میں ایک آٹھ سال کی خانہ بندوش مسلمان بچی کو چار پولیس اہلکاروں نے اغوا کیا۔ زیادتی کے بعد اس معصوم کو قتل کردیا گیا۔ افسوسناک صورت حال یہ سامنے آئی کہ بی جے پی کی خواتین سمیت کئی افراد نے بچی کے قاتلوں کے حق میں مظاہرے کئے۔ بھارت میں سیاسی جماعتوں اور بااثر طبقات کی جانب سے مسلم اداروں اور عقائد پر حملے معمول کی بات ہے۔ اس فضا میں دنیا میں تحسین پانے والے سیکولر بھارتی آئین کی بنیادیں منہدم ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ بھارت کی وزارت داخلہ فرقہ وارانہ تشدد کے بھیانک اعداد و شمار پیش کر رہی ہے۔ اس وزارت پر وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ دور حکومت میں راج ناتھ اور حال ہی میں انتخابی کامیابی کے بعد اپنے دست راست امیت شاہ کو تعینات کیا ہے۔ لوک سبھا میں پیش کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2015 سے 2017ء کے درمیان صاف پتہ چلتا ہے کہ بھارتی سماج میں اقلیتوں پر ہندو اکثریت کے مظالم میں نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد تیزی سے اضافہ ہوا۔ نریندر مودی نے گجرات کے وزیراعلیٰ کے طور پر مسلمانوں کے قتل عام میں جو کردار ادا کیا اس کی وجہ سے وہ کئی سال امریکہ کی سفری پابندیوں کے پابند رہے۔ ایک بڑی منڈی اور جنوبی ایشیا میں حکمت عملی کی تبدیلی کا حصہ ہونے کی وجہ سے نریندر مودی پر امریکہ داخلے کی پابندی ختم کی گئی۔ امریکہ، چین، سعودی عرب، شمالی کوریا، ایران، روس اور پاکستان سمیت کئی ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اورمذہبی بنیاد پر امتیاز یا تشدد کو ہدف تنقید بناتا رہا ہے۔ اس کی جانب سے بسااوقات اسی بنیاد پر کسی ملک پر کچھ پابندیاں بھی عاید کردی جاتی ہیں۔ امریکی حکام نریندر مودی حکومت کے حوالے سے اس بات پر متفق ہیں کہ یہ حکومت بھارتی عوام کی مذہبی آزادی سلب کر رہی ہے۔ خصوصاً غیر ہندو طبقات کے خلاف تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ حالیہ برس مارچ میں امریکی حکام نے بھارتی شہر چنئی اور ممبئی میں مذہبی و نسلی امتیاز کے موضوع پر بھارتی حکام سے تبادلہ خیال کیا۔ پھر گزشتہ برس بھارت میں امریکہ کے متعین سفیر نے نئی دہلی میں مختلف مذاہب کے رہنمائوں کے ساتھ اسی معاملے پر بات چیت کی۔ بھارت میں خصوصاً مسلمانوں کو ہندو انتہا پسندوں کے مظالم کا سامنا ہے۔ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ جب گجرات میں دو ہزار مسلمان قتل ہوئے تو عالمی برادری مودی کو کوئی رعایت نہ دیتی مگر امریکہ سمیت تمام دنیا نے سمجھوتہ ایکسپریس کے سانحہ اور مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کی طرف سے منہ پھیر رکھا ہے۔ اپنے حریف ممالک پر ذرا ذرا سی بات پرپابندی عاید کرنے والے امریکہ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی رپورٹ اور امریکی اداروں کی حالیہ رپورٹ کی بنیاد پر بھارت پر پابندیاں عاید کرے اور اس صورت حال میں مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے بین الاقوامی کمیشن کا اعلان کیا جائے۔ امریکہ اگر ایسا کچھ نہیں کرتا تو اس کی رپورٹس اور انسانی حقوق کے لیے بلندوبالا دعوئوں کو مظلوم ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھتے رہیں گے۔