ہمارے حضرت مولانا فضل الرحمٰن نے جب گزشتہ ماہ اسلام آباد کی جانب مارچ اور وزیر اعظم کے مستعفی ہونے تک دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا تو ،’’حضرت مولانا ‘‘ اور ان کے حامیوں نے ، تحریک انصاف کی حکومت نے،حتیٰ کہ حکومت سے انتقام لینے میں جلتی ،سلگتی پاکستان پیپلز پارٹی ، ن لیگ کی قیادت نے بھی اسے سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔میڈیا کے سرخیل بھی یہی تاثر دے رہے تھے کہ حضرت مولانا مدارس، طلبہ اور علماء ، پنڈی ،پشاور ،لاہور سے ہزار،دس ہزار کے جتھوں میں اسلام آباد میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے ۔ کنٹینروں اور ڈنڈوں سے اُن کی تواضع کر کے ، دو ایک دن میں خان صاحب کی حکومت کے لئے راوی چین لکھ رہا ہوگا۔ مگر حکومت کیا ،اُن کے حلیف بھی 18جولائی کی شکست کے بعد سے جو آگ حضرت مولانا کے سینہ میں شعلہ ٔ جوالا بنی ہوئی تھی ،اُس سے پورے طور پر آگاہ نہیں تھے۔افغان جنگ کے دوران ملکی مدارس کو سعودی مسلم ممالک، پھرہماری اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بلکہ امریکہ بہادر کی ایجنسیوں سے بھاری رقوم ملی تھیں۔اُس نے ’’مدارس ‘‘ کو مزاحمتی قلعوں میں تبدیل کردیا تھا۔ پھر اس دوران ان مدارس کا دائرہ کار محض خیبر پختونخوا تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ بلوچستان اور سندھ میں سینکڑوں کی تعداد میں ان قلعہ نما مدارس میں ہزاروں طلبہ کی ایک ایسی فوج تیار ہوگئی کہ جن کے مظاہرے کی جھلکیاں جب حالیہ دنوں میں اسکرینوں پر چلنی شروع ہوئیں تو اسلام آباد میں بیٹھی اسٹیبلشمنٹ کے محض کان ہی نہیں کھڑے ہوئے بلکہ ہاتھ پائوں بھی پھولنا شروع ہوگئے۔ حضرت مولانا نے جب 27اکتوبر کو آزادی مارچ کا اعلان کیا تو خیال یہی تھا کہ وہ اس کا آغاز اپنے روایتی گڑھ پشاور سے کریںگے۔مگر جہاں دیدہ سیاسی رہنما اور عالم ِ دین مولانا فضل الرحمٰن اس میدان کے پرانے کھلاڑی ہیں۔1977کی پاکستان قومی اتحاد کی تحریک اور پھر ایم آر ڈی کی جنرل ضیاء الحق مخالف تحریک میں وہ صف ِاول کے قائدین میں سے تھے۔انہیں علم تھا کہ پنجاب میں داخل ہونے والی سرحدی راہداری اٹک پُل سے ہی ا نہیں ،پا بہ زنجیر کسی ریسٹ ہاؤس میں نظر بند کردیا جائے گا اور ان کے حامی پکڑ دھکڑ اور چند گھنٹو ں کی مار کے بعد واپس مدارس لوٹ جائیں گے۔اسی لئے حضرت مولانانے اپنے آزادی مارچ کا آغاز اپنے قریبی دوست مرد ِحُر سابق صدر آصف علی زرداری کے سیاسی گڑھ سکھر سے کیا۔ سکھر سے ملتان ، اورپھر لاہور سے پشاور موڑ تک آزادی مارچ کو پہنچنے میں چار دن لگ گئے ۔مگر اس دوران آزادی مارچ کے حوالے سے اسکرینوں پر وہ دھوم دھڑکا ہوا کہ جہاں ایک طرف سرکش ،خود سر تحریک انصاف کی قیادت اور حکومت کو اپنے ایلچی بھیجنے پڑے،وہیں آزادی مارچ کے شرکاء کی تعدا د اتنی قابلِ ذکر ضرور ہوگئی کہ بنی گالہ میں بیٹھے خان صا حب کے مصاحبین کو بھی اپنے قائد کو قائل کرنا پڑا کہ ’’مذاکرات کی بساط‘‘ پر حضرت مولانا کے مارچ سے نمٹا جائے۔ حضرت مولانا نے خان صاحب کی مذاکراتی ٹیم سے جہاں ایک کے بعد دوسری مراعات لیتے ہوئے اپنے حامیوں کو عین بیچ چوک میں لاکھڑا کیا،ساتھ اتنی بڑی کامیابی کے بعد اُن کا لب و لہجہ بھی جھاگ اڑانے لگا۔ادھر بہر حال میاں نواز شریف کی شدید بیماری کی خبریں بھی خان صاحب کی حکومت کے لئے ڈراؤنا خواب بننے لگیں۔یوں حضرت مولانا فضل الرحمٰن ،جن کے آزادی مارچ کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ اسلام آباد میں 48گھنٹے کا مہمان ہوگا،بڑے دھوم دھام سے دسویں دن میں داخل ہورہا ہے۔اس دوران حضرت مولانااور افواج ِپاکستان کے ترجمان جنرل آصف غفور کے درمیان مکالمے نے بھی حضرت مولانا کی سیاسی اہمیت کو مزید جلا بخشی۔ آج اسلام آباد کے سیاسی پنڈت ،جن میں حضرت مولانا کے مخالف بھی شامل ہیں،یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ حضرت مولانا کی بھلے قومی اسمبلی اور بلوچستان ،خیبر پختونخوا اسمبلیوں میں نشستیں انگلیوں میں ہی کیوں نہ ہوں۔ ۔ ۔ مگر تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف حضرت مولانااس وقت اپوزیشن کے سب سے بڑے عوامی قائد کی حیثیت سے اپنا مقام حاصل کرچکے ہیں۔۔ ۔ یہی نہیں ، اب ساری گیندیں ،حضرت مولانا کی جھولی میں ہیں۔اوریہ بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ایک طویل فاصلہ طے کرنے کے بعد آزادی مارچ پشاور موڑ پر ایک ایسی جگہ کھڑا ہے،جہاں بند گلی ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے حضرت مولانا میں جتنی ہوا بھری تھی،اِس سے زیادہ کے لئے وہ تیار نہیں کہ اس میں خود ان کا سیاسی مستقبل داؤ پر لگا ہے۔رہی تحریک انصاف کی حکومت۔ ۔ ۔ اور ان کے انا پرست قائد،وزیر اعظم عمران خان ، تو ان کے مشیروں اوروزیروں ،بلکہ مصاحبوں نے آزادی مارچ کے حوالے سے جو مشورے بلکہ کان بھرے ،اُس میں بھی خان صاحب کی حکومت محض سوا سال میں ایک ایسے سیاسی بحران کی لپیٹ میں آگئی ہے کہ جس سے نجات ’’پنڈی،آب پارہ ‘‘ والے ہی دلا سکتے ہیں۔مگر مقتدر ادارے ماضی کے تجربوں کے بعد قطعی طور پر اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ وہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف جیسی کسی مہم جوئی کا حصہ نہیں بنیں گے۔یوں حکومت ہو ،یا اپوزیشن ،یا پھر مقتدر ادارے ،سب ایک ہی بند گلی میں جاکھڑے ہوئے ہیں۔ پہلے ہی سے ڈولتی لڑکھڑاتی معیشت میں وطن ِ عزیز میں سیاسی محاذ پر تین فریقوں کا بند گلی میں کھڑا ہونا،میرے منہ میں خاک، کسی حادثے یا سانحے کا سبب نہ بن جائے۔ ۔ ۔ ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ جب کسی منتخب حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی تحریک چلے تو بوٹوں کی چاپیں سنائی دینے لگتی تھیں۔ گو یہ باب قصہ ٔ پارینہ ہوا،مگر سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب کہ کشمیری عوام اپنی آزادی کی تاریخ کی فیصلہ کن جنگ لڑنے میں مصروف ہیں،اور ہماری افواج ِ پاکستان کی قیادت کی ساری توجہ خارجی محاذ پر ہے،تو اس بند گلی سے نکلنے کے لئے دو بڑے فریقوں یعنی حکومت اور اپوزیشن کے قائد حضرت مولانا کو ایک ،ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑے گا۔یہ بات تو طے ہے کہ اس وقت بھی جب میری نظریں اسکرینوں پر ہیں،تو حضرت مولانا کی گرج چمک دیدنی ہے۔وہ اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ استعفیٰ لے کر ہی واپس جائیں گے۔ حضرت مولانا بہر حال اس میں تو کامیاب ہو ہی گئے کہ وہ بیچ اسلام آباد میں بیٹھے ہیں ،جہاں تخت ِ اسلام آباد پر بیٹھنے والوں کا تختہ نہ بھی الٹے ،مگر اُن کی راتوں کی نیند ضرور اُڑ چکی ہے۔اور جسے بہر حال حضرت مولانا کی ایک بڑی کامیابی ہی کہا جائے گا۔