ایک وقت تھا کہ ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریکیں چلتی تھیں۔ہنگامہ ، ہلڑ بازی ، توڑ پھوڑ سیاسی ثقافت کا حصہ تھے۔آمریت کو بھگانے کے لیے لاقانونیت کی رسی ڈھیلی چھوڑ دی جاتی تھی۔ جیل بھرو تحریکیںاس ملک کو وراثت میں ملی ہیں۔ اب آئین بحال ہے، جمہوریت کا پچھلی ایک دہائی سے دور دورہ ہے، اس جمہوریت کا گلا دبانے والی قوتیں آئینی حدود میں رہنے کا بار بار اعادہ کر رہی ہیں۔ صوبائی خود مختاری کا دہائیوں سے مطالبہ تھا،اب وہ بھی اٹھارویں ترمیم کے بعد سے نہیں رہا۔ہاں اگر کچھ کرنے کو ہے تو وہ بنیادی حقوق کی فراہمی ہے۔ٹیکسوں کے نظام میں اصلاح اور خود مختار مقامی حکومتوں کا قیام اس ضمن میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ان معاملات میں مگر پرانی اور روایاتی سیاسی پارٹیوں نے لیت و لعل سے کام لیا۔انکا خیال تھا کہ وہ اٹھارویں ترمیم کا کچھ مزید عرصے تک حظ اٹھاسکتی تھیں۔ لیکن یہ خام خیالی تھی۔ نئے صوبوں پر آئینی الجھنوں کی وجہ سے لوگوں تک انکے حقوق کی رسانی کا واحد راستہ مقامی حکومتیں ہوسکتی تھیں۔ اورایسا کرنا محض ایک اخلاقی ذمہ داری نہیں تھی بلکہ آئینی تقاضہ بھی تھا۔مرکز سے وسائل لیکرملک کے مضافاتی علاقوں میں واقع صوبائی دارلحکومتوں میں مرتکز کرنا عدم مرکزیت کے فلسفے کی منافی تھی جسکے تحت صوبائی خود مختاری حاصل کی گئی تھی۔ مقامی حکومتیں لپیٹنے کے بعد میثاقی پارٹیوں کا اگلا ہدف کمشنری نظام کی بحالی اور پولیس اصلاحات کو واپس انیسویں صدی کی طرف موڑنا تھا۔ یوں خود مختار صوبے قدامت پرستی کے راستے پر نکل گئے۔ مسئلہ یہ بھی ہوا کہ کمشنر ز کو انکے اختیارات پورے واپس نہ ملے۔ پولیس انکے ماتحت نہ رہی نہ ہی ماحولیات اور خصوصی قوانین کا اطلاق۔ انتظامی معاملات میںکنفیوژن کی وجہ سے ملک کرونا سے بہت پہلے بے بسی کی تصویر بن چکاتھا۔ اضافی فنڈز کی دستیابی کے باوجود تعلیم اور صحت جیسے شعبے نجی دسترس میں دے دیے گئے۔ بیوروکریسی کے اپاہج ہونے سے صوبوں میں حکمران پارٹیاں عوام کے سیاہ و سفید کی مالک بن بیٹھیں۔ نئے پاکستان کے نعرے کی مقبولیت اور پاکستان تحریک انصاف کی پچھلے عام انتخابات میں کامیابی کو اپنی ناقص پالیسوں اور متعصبانہ سوچ کا شاخسانہ سمجھنے کی بجائے میثاقی پارٹیوں نے اسے اسٹیبلشمنٹ کی چال قرار دیا اور تصادم کی راہ پر چل نکلیں۔ احتسابی عمل نے ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں اور انکے نسل پرست حلیفوں کو مولانا فضل الرحمان کی آغوش میں ڈال دیا ہے۔ بنیادی حقوق کی فراہمی سے انکار ہی بنیادی نقطہ ہے جس پر حزب اختلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے پلیٹ فارم پر جمع ہے۔ بچوں اور خواتین کے حقوق پر جمعیت العلماء اسلام (ف) کا موقف کون نہیں جانتا۔ مقامی حکومتوں کے معاملے میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی سوچ واضح ہے۔ پچھلے عام انتخابات میں جب فضل الرحمن اپنی سیٹ تک ہار گئے تو انہوں نے بے ساختہ کہا تھا انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اور،نتیجتاً ،اس سے وجود میں آنے والی اسمبلیا ں نا جائز ہیں۔ انہوں نے حزب اختلاف کی پارٹیوں سے تقاضہ کیا تھا کہ وہ اپنے ارکان کو حلف لینے سے باز رکھیں۔ انکی بات کو تاہم اہمیت نہ دی گئی۔ انہوں نے گلے شکوے کیے اور پھر حق کے راستے پر اکیلے ہی چلنے کا فیصلہ کرلیا۔تن تنہا، مہینوں نہ سہی ، ہفتوں اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ انکے اپنے تئیں ان کا دھرنا کامیاب تھا، کچھ گارنٹیاں ملیں تو وہ یہاں سے اٹھے۔ لیکن وعدے وفا کرنے کا وقت آیا اور گزر گیا ، جب کچھ ہوتا نظر نہ آیا تو انہوں نے نام لے لے کر وعدے یاد دلانا شروع کردیے۔ دریں اثنا ، بڑی سیاسی پارٹیوں اور حکمران تحریک انصاف کے درمیان احتساب کی ملکی ترقی اور دنیا سے معاشی تعلقات میں اس عمل کی مرکزی اہمیت پر اختلافات اس نہج پر پہنچ گئے کہ انہیں عمران خان حکومت کو گرانے کے علاوہ نجات کی کوئی اور صورت نظر نہ آئی۔ یوں ملکی تاریخ کے نہایت نازک دور میں،جب ملک کرونا ، ٹدی دل اور بے وقت کے سیلاب اور بارشوں کی زد میں ہے، بلا تخصیص فکری اور نظریاتی اختلافات کے اپوزیشن کی نظرانتخاب انہیں پر پڑی ہے۔ ایسے میں جب پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی اعلی قیادت یا تو جیلوں میں پڑی ہے یا پھر احتساب عدالت کی پیشیاں بھگت رہی ہے،وہ ان کے لیے امید کی کرن بن کر سامنے آئے ہیں۔ان کی دور اندیش نظروں نے شائد بھانپ لیا تھا کہ کل کیا حالات آنے والے ہیں۔پیش بندی تک انہوں نے کر رکھی تھی،حکومت کے خلاف فتوٰ ی وہ پہلیہی دے چکے تھے۔ان کے اسلام آباد کے دھرنے کو عجلت پسندی کا نام دینے والی اور پانچ سال انتظار کا کہنے والی حزب اختلاف کا عزم و حوصلہ صرف دو سال میں ہی ٹوٹ گیا ہے۔مولانا فضل الرحمٰن تحریک انصاف کی حکومت کا بوریا بستر لپیٹنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا لیکن سیاست بند گلی میں ضرور داخل ہوگئی ہے اور یہ اس بند گلی سے تن تنہا نکل سکتی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ سیاستدانوں کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ ڈھاک کے وہی تین پات کے مصداق، معاملہ اب بھی وہیں پہ اٹکا ہے کہ غلامانہ دور کے محصولاتی اورتعزیراتی نظام کا کیا ہوگا جو لوگوں کو غربت اور ذلت کے شکنجے میں کستاہے اور یہ کہ ملکی وسائل کی بلا تخصیص خطہ و علاقہ تقسیم کے لیے آئین کی روح کے عین مطابق خود مختار اور منتخب مقامی حکومتیں کب قائم ہونگی۔ سیاست کو بند گلی سے نکالنے کا راستہ انہیں سوالوں کے جواب میں پوشیدہ ہے۔