مجھے وہ چار اپریل بھی یاد ہے جب ساری رات ہم نے آنکھوں میں گزاری۔ آخری اطلاع یہ آئی کہ بھٹو کو پھانسی ہو چکی ہے، ہمارے دوست سعودی ساحرجو پنڈی جیل کے اردگرد خبر کی تلاش میں منڈلا رہے تھے، گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ گویا ہم اب باخبر ہو چکے تھے اور سو سکتے تھے۔ صبح اٹھ کر ذرا بازار نکلے، ایک چائے خانے پر چائے پی رہے تھے اور ریڈیو پاکستان سے یہ خبر نشر ہورہی تھی کہ بھٹو کو پھانسی لگا دی گئی اور ہم باہر سڑک پر دکھ سے دیکھ رہے تھے، کوئی ردعمل نہ تھا۔ یقین نہ آتا تھا کہ اتنا بڑا لیڈر جان سے گزر جائے اور کوئی پتا تک نہ کھڑکے۔ یہ میرا پہلا تاثر تھا اور مجھے اس کا دکھ ہوا تھا۔ شام کو برادرم سراج منیر اور شعیب بن عزیز وائی ایم سی اے کے ریستوران میں جا بیٹھے۔ آج پاک ٹی ہائوس میں بیٹھنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ جانے کیا کیا باتیں ہوں۔ ہم سب بھٹو کے حامی نہ تھے، بلکہ مخالف تھے مگر اتنے بڑے آدمی کے یوں رخصت ہونے پر ملول تھے۔ بھٹو کی موت ہی ایسی تھی ہم کئی گھنٹے بیٹھے دنیا کے اس چلن پر ماتم کرتے رہے۔ باہرنکلے تو احساس ہوا کہ ایسا بھی نہیں کسی کو دکھ نہ ہوا ہو۔ ہم ہر سال چار اپریل کو بڑی آب و تاب سے مناتے ہیں۔ گڑھی خدابخش میں بھٹو کا عظیم الشان مقبرہ اس کی جلالت کو ظاہر کرتا ہے۔ مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب میں نے پہلی بار بھٹو کے مزار پر حاضری دی تھی۔ شاہنواز بھی رخصت ہو چکا تھا۔ یہ دو کچی سی قبریں تھیں، جن پر دوپٹہ نما چادریں لٹک رہی تھیں۔ میں پھر بہت اداس ہوا تھا۔ ایک اجڑا دیار تھا، کئی برس بیت چکے تھے، مگر بھٹو کا مزار بے یارومددگار تھا۔ اگرچہ سندھ میں ایسی باتیں مشہور تھیں کہ لوگوں نے اسے بادلوں میں دیکھا ہے۔ وہ شہید ہے، وہ امر ہو چکا ہے، وہ ولی اللہ ہے۔ یہ ساری تاریخ بنتے ہم نے خود دیکھی ہے۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں بھٹو کا حامی کبھی نہیں رہا۔ مگر اس کی صلاحیتوں کا منکر بھی نہیں رہا۔ میں نے کہیں لکھا تھا کہ جب میں روسی سامراج کے خلاف لڑ رہا تھا تو جماعتیہ کہلاتا تھا اور اب جبکہ میں امریکہ کے خلاف برسرپیکار ہوں، بنیاد پرست کہلاتا ہوں، بعض اوقات تاریخ کسی سے انصاف نہیں کرتی۔ یہ بھٹو سے بھی انصاف نہ کر پائے گی اور سچ پوچھئے تو ضیاء الحق سے بھی نہیں۔ بعض اوقات ہم تاریخ کو اپنے تصورات کی روشنی میں پرکھتے ہیں۔ ہمارے دوست ہیں آفتاب گل، قانون دان اور کرکٹر ہی نہیں بھٹو کے عاشق۔ وہ بھٹو پر تو فریفتہ ہیں مگر موجودہ پیپلزپارٹی کے کردار کے قائل نہ ہو سکے۔ ان سے جب پہلی بار ملاقات ہوئی تو میں نے گفتگو کے آغاز میں انہیں ٹوکا۔ وہ برسوں انگلستان میں جلاوطنی کے دن گزار کر لوٹے تھے۔ وہ مجھے کوئی بات سمجھانا چاہ رہے تھے۔ مجھے اندازہ ہوا وہ دقت محسوس کر رہے ہیں۔ میں نے انہیں ٹوک کر عرض کیا کہ حضور ذہن میں رہے میں ایک رائٹسٹ شخص ہوں۔ وہ کہتے ہیں اس سے پہلے انہیں دو کلچرل شاک لگے تھے۔ یہ اب تیسرا تھا۔ وہ جب انقلاب کی ہوائوں میں جھومتے جھامتے انگلستان پہنچے، تو وہاں انہیں مارگریٹ تھیجر سے پالا پڑا جو کہہ رہی تھی کہ وہ انگلستان کو مارکسزم کا قبرستان بنا دیں گی۔ یہ کہتے ہیں، میں حیران ہوا کہ دنیا میں کوئی ایسا شخص بھی ہو سکتا ہے جو مارکسزم کی قبر کھودنا چاہتا ہو۔ دوسرا کلچرل شاک اس وقت ہوا جب وہ برسوں بعد پاکستان لوٹے تو ایئرپورٹ پر ہی انہیں مرد مومن، مرد حق ضیاء الحق ضیاء الحق کا نعرہ سننا پڑا۔ ان کا تصور یہ تھا کہ دنیا میں کوئی شخص ایسا ہو ہی نہیں سکتا جو ایسا نعرہ لگائے۔ اپنے اپنے تصور کی بات ہے۔ اس طرح مجھ سے یہ سن کر کہ میں رائٹسٹ ہوں۔ بقول ان کے انہیں تیسری بار کلچرل صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔ شاید یہ سمجھنے میں انہیں زیادہ دیر نہ لگی ہوگی کہ پاکستان میں لیفٹ، رائٹ وغیرہ کی بحثوں کا اصل تناظر ہے کیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ یہاں رائٹسٹ کا مطلب دین دار ہے تو لیفٹ کا مطلب زیادہ سے زیادہ ایسا شخص جو غریبوں کا دکھ درد رکھتا ہو وگرنہ مخالف تو انہیں بے دینی کے خانے میں ڈال دیتے ہیں۔ میں یہ ساری باتیں اس لیے کر رہا ہوں کہ میری نسل نے یہ چالیس پچاس سال بڑی تندوتیز نظریاتی بحثوں میں گزارے ہیں جن کے لیے بھٹو محض ایک پارٹی کا نام نہیں ہے، وہ اسے ایک دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ سیاست کے حوالوں سے بھی دیکھیں تو مشرقی پاکستان کے سانحے کا ذکر آتا ہے، صنعتوں کو قومیائے کی بات ہوتی ہے، ملک کو آئین دیتے اور ساتھ ہی جمہوری قدروں اور سول آزادیوں کو پامال ہونے کا تذکرہ کرتا ہے۔ بھٹو ہماری تاریخ کا ایک ایسا کردار تھا جس کو سمجھے بغیر ہم اپنی آج کی سیاست کو نہیں سمجھ سکتے۔ اگر ہم اپنے اپنے تعصبات پر قائم رہیں تو ہم مختلف تاریخیں لکھیں گے۔ بھارت میں اس کی کوششیں ہورہی ہیں۔ دنیا کے بہت سے ممالک اپنی اپنی تاریخ کو فتح کر کے خوش ہوتے ہیں۔ تاہم بھٹو ہماری تاریخ کا ایک ایسا موڑ تھا جس نے نئی سیاست اور نئے پاکستان کی بنیاد رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نئے پاکستان کے لفظ سے اب بھی چڑتا ہوں۔ میں دور نکل گیا۔ یہ درست ہے کہ بھٹو کی موت پر وہ احتجاج نہ ہوا تھا جس کے وہ حق دار تھے، چاہے ہم تاریخ کو جو رخ بھی دیتے رہیں۔ مگر آج چالیس برس بعد بھی وہ ایک ایسی قوت ہے کہ جب اس کی برسی آتی ہے، اس کی پارٹی میں جان پڑ جاتی ہے۔ اس وقت پارٹی جس مشکل میں ہے، اس کے پس منظر میں گڑھی خدا بخش کے نعرۂ مستانہ نے پورے ملک کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ بلاول کہتا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کو کچھ ہوا تو وہ اسلام آباد پر چڑھ دوڑیں گے، آصف زرداری تو اگر مگر بھی نہیں کرتے، وہ سیدھا حکومت بدلنے کی بات کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ بے شمار افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ سٹاک مارکیٹ میں مندی کے رجحان پر ایک بہت بڑے سٹاک بروکرکی یہ رائے پڑھی ہے کہ یہ اسی لیے ہے کہ صدارتی نظام آنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ادھر لاہور میں نیب شہباز شریف کی رہائش گاہ پر چڑھ دوڑی ہے تاکہ حمزہ شہباز کو گرفتار کیا جائے۔ یعنی یہ کہانی ختم کہ باری باری ایک ایک سے الگ الگ نمٹا جائے۔ زرداری کو چھیڑا جائے تو شریفوں کو کوئی رعایت دی جائے اور شریفوں کو چھیڑا جائے تو زرداریوں کو رعایت دی جائے۔ یہ کون ہے جو صورت حال کو اتنا گھمبیر کر رہا ہے۔ کیا نیب اتنی بڑی ہو گئی ہے کہ وہ پورے ملک کے نظام کو تہس نہس کر سکتی ہے اور اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اگر ایسا نہیں تو پھر کیا ہورہا ہے۔ کیا سو دن کے بعد عمران خان کو جو چھ ماہ کی مہلت دی گئی تھی، وہ ختم ہوا چاہتی ہے۔ اکانومی کی جو صورت حال ہے، اس کی سطح یہ ہے کہ وزیر خزانہ یہ کہتے ہیں کہ اگر آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہوا تو ہم دیوالیہ ہو جائیں گے۔ پاکستان کے تمام ممتاز ماہرین معیشت اور عالمی ادارے یہ کہہ رہے ہیں کہ اس سال ہماری شرح نمو خطے میں سب سے کم رہے گی اور اگلے سال اس سے بھی کم۔ یعنی یہ جو چھ ماہ ایک سال کے لارے لپے دیئے گئے تھے، وہ بھی ختم ہورہے ہیں اور خبر یہ ہے کہ معیشت مزید خراب ہو گی۔ کیا ملا، اس ساری جدوجہد کا۔ ہم بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ ہم دوبارہ چین کی طرف جائیں گے۔ ہم نے سی پیک کو ایک برس کے لیے موخر کر کے رکھ دیا ہے، کیا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کی ساری ساری شرائط مانیں اور اسی سے امداد کا کڑوا گھونٹ بھی پئیں۔ پاک چین راہداری کو بریک لگائے رکھیں اور اب ہر چھوٹا سا منہ لے کر وہیں کا رخ کریں، سو پیاز بھی، سو جوتے بھی۔ مجھے بھٹو پھر یاد آتا ہے، ہم اپنی تاریخ کے کیسے کیسے مرحلوں سے گزرے ہیں۔ یہ تو نہیں کہتا کہ بھٹو نے سو پیاز بھی کھلائے اور سو جوتے بھی۔ یہ ضرور کہتا ہوں کہ نہ انقلاب کے ثمرات ملے اور نہ ہم اپنے پائوں پر سنبھل پائے۔