بچے کی ذہن سازی میں سب سے اہم کردار کون ادا کرتا ہے۔ والدین‘ سکول یا معاشرہ یا میڈیا؟ مختلف لوگ اس کا مختلف جواب دیں گے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک آج کل میڈیا ہی ہے جو بچوں پر سب سے زیادہ اثر انداز ہورہا ہے۔ گھروں کا ماحول ہی ایسا بن چکا ہے کہ ماں باپ اپنے اپنے موبائل سیٹس ہاتھ میں پکڑے سوشل میڈیا کی مصروفیات میں بندھے ہوئے ہیں اور بچے بھی ٹیب (Tab) اور کمپیوٹر پر طرح طرح کی ویڈیو گیمز کھیلنے میں مصروف ہیں۔ ویڈیو گیمز کے علاوہ بھی بچے سکرین پر کارٹون اور اپنی پسندیدہ ویڈیوز دیکھتے ہیں اور پھر جو کچھ ان میں دیکھتے ہیں وہی کچھ سیکھتے ہیں اور ویسا ہی بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ میڈیا کا کردار غیر محسوس طریقے سے ذہن سازی میں اہم ہوتا جارہا ہے مگر اس کے باوجود میں سمجھتی ہوں کہ میڈیا خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو والدین سے زیادہ طاقتور نہیں ہوسکتا۔ یہ سچ ہے کہ بچے بہت کچھ ایسا دیکھتے رہتے ہیں جو شاید انہیں نہیں دیکھنا چاہیے لیکن اگر والدین اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے ان کو ایسے مشاغل اور ایسے کاموں میں شامل کرتے ہیں جس سے وہ مثبت باتیں بھی سیکھتے رہیں تو میڈیا کے اثرات ان کے ننھے ذہنوں میں اپنا اتنا اثر نہیں جما سکتے۔ بچے کی ذہن سازی میں گھر اور والدین کا اثر بہت اہم ہوتا ہے بچہ جو کچھ دیکھتا ہے وہ ایک سیاہی چوس کی طرح اپنے اندر جذب کرتا جاتا ہے۔ تیسری جماعت میں دانیال کی پہلی پیرنٹس ٹیچر میٹنگ تھی جب میں اس کی نئی انگلش ٹیچر سے ملی۔ وہ اسلام آباد سے تبادلہ ہو کر لاہور کے اس کیمپس میں آئی تھیں۔ جب میں نے اپنا تعارف کروایا تو غیر معمولی گرم جوشی سے ملیں کہ اچھا آپ ہیں دانیال کی والدہ، میں تو خود ملنا چاہتی تھی۔ آپ سے۔ میں نے حیرت سے پوچھا اچھا وہ کس لیے۔ کلاس میں دانیال زیادہ تنگ تو نہیں کرتا؟ ٹیچر دُرِ مریم مسکرا کر بولیں کہ آپ کا بیٹا جس طرح اپنے ہم جماعتوں کو مثبت سوچ پر لیکچر دیتا ہے انہیں Aanger Management کے طریقے سکھاتا ہے۔ اس پر مجھے بڑی حیرت ہوتی تھی کہ میں اس بچے کے والدین سے ملوں کیونکہ میرا بیس سالہ کا پڑھانے کا تجربہ مجھے یہی بتاتا ہے کہ بچہ اسی فیصد (80) اپنے گھر کے ماحول سے سیکھ کر آتا ہے۔ ٹیچر دُرِ مریم کی یہ بات سن کرظاہر ہے مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں نے انہیں بتایا کہ مثبت سوچ کی طاقت‘ غصہ کو کیسے کنٹرول کرتے ہیں اور ہارنے کے باوجود کیسے خوش رہتے ہیں۔ یہ سارے موضوعات ہماری روز مرہ کی بات چیت کا حصہ ہیں۔ کسی دن اگر دانیال سکول سپورٹس میں ہار کر آیا اور غصے سے منہ پھولایا ہوا ہے کہ میں کیوں ہارا اور اس پر موڈ خراب ہے تو اس روز ہمارا موضوع گفتگو یہ ہوتا ہے کہ ہارنا کیوں ضروری ہے اور ہم ہار سے کیا سیکھتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ دانیال نرسری کلاس میں تھا اور ایک دن بہت پریشان کہ ماما میں ایک گیم ہار گیا ہوں تو بچوں نے مجھے لوزر کہا۔ اس دن میں اسے سمجھایا اور ایک فقرہ یاد کرا دیا کہ اگر کوئی لوزر کہے تو آپ نے بڑے آرام سے کہنا ہے: I am not loser as for as I am trying. مثبت سوچ بہت طاقت رکھتی ہے۔ اپنے بیٹے کو اس کی اہمیت میں نے شروع سے سکھائی، اس کے سکول میں سالانہ کمپیوٹر کے حوالے سے ایک کوئز مقابلہ ہوتا ہے جس میں دونوں سیکشن حصہ لیتے ہیں۔ ون کلاس میں دانیال نے یہ کوئز جیتا، پھر ٹو کلاس میں جب کوئز کمپیٹیشن ہونا تھا تو تیاری کے باوجود صاحبزادے پر اعتماد نہیں تھے کہ میں ہار جائوں گا میں نہیں جیتوں گا۔ اس وقت میں نے اسے سمجھایا کہ آپ باربار خود سے یہ کہو کہ میں جیتوں گا۔ میں جیتوں گا۔ میری تیاری بہت شاندار ہے۔ یہ مائنڈ پاور کی ایک مشق ہے۔ جب اگلے روز وہ تمتماتے ہوئے چہرے کے ساتھ ٹرافی لے کر آیا تو مجھے دیکھتے ہی بولا ماعا! آپ نے ٹھیک کیا تھا کہ مثبت سوچ کی طاقت ہوتی ہے میں نے مقابلہ جیت لیا ہے۔ ماما! میں نے مقابلے سے پہلے بھی خود کو دل میں یہی کہا تھا کہ مجھے سب آتا ہے۔ میں جیت جائوں گا۔ اور یہ ان ساری سیکھی ہوئی باتیں صاحبزادے اپنے دوستوں کو بھی سکھاتے ہیں۔ ایک دلچسپ بات میری ایک دوست نے بتائی جو نرسری کلاس کے بچوں کو پڑھائی تھی، کہنے لگی کہ میری کلاس کی ایک بچی کھیل کے ٹائم میں اپنے کلاس فیلوز سے کہتی ہے آئو ’’ماما بابا بن کر لڑائی لڑائی کھیلتے ہیں‘‘ بچی کے منہ سے نکلا ہوا یہ آٹھ حرفی جملے نے اس کے گھر کے ماحول اور ماں باپ کے درمیان کشیدہ تعلقات کی تصویر کھیچ کر رکھ دی۔ یقین جانیں، بچے آپ کی سوچ سے بھی زیادہ آپ کے کردار کو مشاہدہ کرتے ہیں، والدین کے بولے ہوئے لفظوں کو اپنے اندر جذب کرتے ہیں۔ گھر کے ماحول میں اگے ہوئے کانٹے ان کے ننھے ذہنوں پر خراشیں ڈالتے جاتے ہیں، اور جہاں والدین آپس کی رنجشوں کو چھپا کر رکھتے ہیں گھر کا ماحول خوشگوار رہتا ہے تو بچے کے اندر اعتماد اور یقین کی قوت پیدا ہوتی ہے اگر گھر کے ماحول میں، اسلامی اقدار، تہذیب اور شائستگی کے عناصر ہوں گے تو لاکھ میڈیا پر بدتمیزی بدتہذیبی، اسلامی اقدار کے منافی چیزیں دکھائی جاتی رہیں، اس کا ذہن ان کے اثرات سے بڑی حد تک محفوظ رہ سکتا مگر ایک ماحول آپ کو ضرور بنانا پڑتا ہے۔ اس سوچ کے ساتھ کہ آپ کے بچے کا سب سے بڑا استاد وہ ماحول ہے جو آپ اس کے لیے گھر میں بناتے ہیں۔آپ کے بچے کی سب سے بڑی تربیت گاہ۔ معاشرہ میڈیا اور سکول نہیں، آپ خود ہیں۔