بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان میں ایئر سرجیکل سٹرائیک کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ بھارت سرحدوں پر ہونے والی کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کو برداشت نہیں کرے گا بلکہ اس کا جواب دے گا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جواباً کہا ہے کہ بھارت 27فروری کا جواب یاد رکھے۔ نریندر مدی کے بھارت کا وزیر اعظم بننے کے بعد سے نہ صرف پاکستان بلکہ خطے میں موجود دیگر ہمسائیوں کے ساتھ بھی بھارت کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ در حقیقت نریندر مودی آر ایس ایس کے نظریے کو لے کر اقتدار میں آیا تھا اور اس کے پرچار کے لئے کمر بستہ ہے۔ مودی تو باقاعدہ طور پر آر ایس ایس کا رکن ہے آج بھی پورے بھارت میں ہندو توا کا پرچار کیا جا رہا ہے۔ ہندو اپنے نظریے کے مطابق بھارت میں دیگر تمام اقوام کو نکال کر خالصتاً ہندوئوں کے لئے ملک بنانا چاہتے ہیں۔ اس بنا پر وہ دیگر اقلیتوں پر تشدد کر کے انہیں ملک سے نکالنے کی کوششوں میں ہے۔ مودی سرکار نے 5اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کیا۔ بعدازاں شہریت قانون تبدیل کر کے بھارت میں موجود اقلیتوں کا جینا دوبھر کیا۔ نیپال اور بھوٹان کے ساتھ سرحدی تنازع شروع کیا۔ پھر لداخ میں چین کے ہاتھوں تاریخی ہزیمت اٹھائی۔ جس کا بھارت کے دفاعی تجزیہ کار اجے شکلا نے بڑی فراغ دلی سے اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین نے لداخ میں اپنی فرنٹ لائنز کو تبدیل کر کے بھارتی علاقے پر قبضہ کر لیا ہے جبکہ نئی دہلی ابھی فوجی اور سفارتی مذاکرات کا ’’طویل سفر‘‘ طے کرنے میں مصروف ہے۔ اگر حکومت نے ایسے ہی ذلت آمیز طریقے سے سرنڈر ہی کرنا تھا تو وہ لداخ سے مائونٹین سٹرائیک کو اور بکتر بند بریگیڈ کو ہٹا دے۔ اس سے واضح محسوس ہوتا ہے کہ بھارتی دانشور اور اپوزیشن اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ چین نے لداخ پر قبضہ مستحکم کر لیا ہے۔ بھارتی میڈیا کو اس شکست پر سانپ سونگھ چکا ہے۔ مودی سرکار سے جب اس کی رعایا اس عبرتناک شکست کے بارے پوچھتی ہے تو مودی سرکار ان کے غصے کو ٹھنڈے کرنے کے لئے پاکستان میں ایئر سرجیکل سٹرائیک کی باتیں کرتی ہیں۔ یہ بات مسلم ہے ہے کہ بھارت جب بھی اندرونی خلفشار کا شکار ہوتا ہے یا پھر اس کے عوام اور سیاست اسے دفاعی پالیسیوں پر آڑے ہاتھوں لیتے ہیں تو وہ عوام کو گمراہ کرتے ہوئے ہمسائیوں کے ساتھ ایسی لڑائیوں کی باتیں کرتا ہے۔ آج بھارت میں لداخ کے معاملے پر عوام میں ایک بے چینی پائی جاتی ہے۔ جس کی بابت دانشور‘ صحافی‘ اداکار ‘ کھلاڑی اور سیاسی جماعتیں سوالات پوچھتے ہیں۔ بھارتی وزیر داخلہ ان سوالوں کے جوابات دینے کی بجائے انہیں رام کرنے کے لئے ایسے بیانات دیتے ہیں۔ مودی سرکار کی عوام دشمن پالیسیوں کی بدولت 130کروڑ بھارتی یرغمال بن چکے ہیں۔ کورونا وائرس کے باعث مودی سرکار نے اپنے ہی شہریوں کو قید کر رکھا ہے۔ ان حالات میں میں اگر مودی کسی بھی ہمسائے کے ساتھ جارحیت کے بارے سوچے گا بھی تو اس کا اپنا ہی نقصان ہو گا۔ کیونکہ اس وقت بھارت میں سوا سو کے لگ بھگ علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ ان تحریکوں کو بس تھوڑا سا سہارا چاہیے۔ جس کے بعد بھارت کو ٹکڑوں میں تقسیم ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ جنگی جنون میں مبتلا بھارت نے لائن آف کنٹرول پر باقاعدہ ایک جنگی ماحول بنا رکھا ہے۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کی جانب سے مئی 2020ء تک 1102بار کنٹرول لائن پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کی گئی۔ بھارتی فوج پاکستان کے شہری آبادی کو نشانہ بناتی ہے جس کا بے گناہ شہری نشانہ بنتے ہیں۔ بھارتی جنگی عزائم کا اندازہ اس بات سے بھی ہو جاتا ہے کہ بھارت مسلسل جاسوسی کی غرض سے کواڈ کاپٹر پاکستان بھیجتا ہے پاکستان اپنی حدود میں داخل ہونے والے اب تک 7بھارتی کواڈ کاپٹر تباہ کر چکا ہے۔ بھارتی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ سے سرحد کے قریبی بسنے والے شہریوں پر آئے روز کی اندھا دھند فائرنگ اور شیلنگ سے شہریوں کی جان و مال کو ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے۔ پاکستان بارہا عالمی برادری کی توجہ بھارتی جارحیت پر مبذول کروا چکا ہے لیکن بدقسمتی سے عالمی برادری اس کا نوٹس نہیں لے رہی۔ اب ایک بار پھربھارت نے اشتعال انگیزی کرتے ہوئے ایئر سرجیکل سٹرائیک نے گیدڑ بھبکی دی ہے۔ حالانکہ وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ پاک فوج بھارت کے ایسے جارحانہ عزائم کے توڑ کے لئے ہمہ وقت چوکس ہے۔65ء کی جنگ کا زخم بھارتی افواج آج تک چاٹ رہی ہے۔ جبکہ کارگل میں بھارتی افواج اپنے ساتھیوں کی لاشیں چھوڑ کر جیسے بھاگی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔لیکن ان تمام شکستوں کے باوجود مودی سرکار نے آر ایس ایس کی دلجوئی کے لئے 25فروری 2019ء کو ایک بار پھر حماقت کی تھی جس کا پاکستان نے صرف دو دن کے وقفے سے ایسا جواب دیا کہ بھارت کے دو طیارے مار گرائے جبکہ ایک پائلٹ گرفتار کر لیا تھا۔ اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے 6اہداف بھی تباہ کئے تھے بھارتی فضائیہ ابھی تک وہ زخم چاٹ رہی ہے لیکن بھارت ایک بار پھر طاقت کی باتیں کر رہا ہے۔ اس بار بھی پاکستان بھارت کو پہلے سے سخت جواب دے گا۔ لیکن عالمی برادری کو بھارتی جارحیت کا فی الفور نوٹس لینا چاہیے۔ دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے ہیں۔ ایک چھوٹی سی چنگاری بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس لئے سلامتی کونسل اور یورپی یونین بھارتی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی کا نوٹس لے تاکہ خطے میں امن کی فضا قائم رہے۔ خدانخواستہ عالمی برادری نے اگر اس بار بھی خاموشی اختیار کئے رکھی تو خطے میں حالات ایک بار پھر کشیدہ ہو جائیں گے۔