پارٹی نے مسلم لیڈروں کو یہ بھی بتایا تھا کہ انتخابات میں وہ ٹکٹ یا مینڈیٹ کے حصول کیلئے تگ و دو نہ کریں اور حلقہ کیلئے کسی مضبوط سیکولر ہندو امیدوار کر ترجیح دیکر اسکو کامیاب بنائیں۔انتخابات کے دوران اتر پردیش کا دورہ کرتے ہوئے د یو بند شہر میں معروف وکیل ندیم اختر نے راقم کو بتایا تھاکہ بی جے پی کو پتا ہے کہ مسلمان ان کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیتا ہے اس لئے ا ن کا امیدوار ووٹ مانگنے ہی نہیں آتا ہے۔ اس کے لیڈروں کی کوشش ہوتی ہے کہ مسلم ووٹ تقسیم اور ہندو ووٹ یکجا ہو۔ ادھر سیکولر پارٹیوںکو معلوم ہے کہ مسلمان کہاں جائے گا، ووٹ تو بہرحال انہی کو ملنا ہے، اس لئے وہ بھی ان کے سماجی اور اقتصادی مسائل کو حل نہیں کرتے ہیں۔ اتر پردیش کے ہی کوسی کلان قصبہ میں مسلمان محلوں کی حالت اس قدر ناگفتہ بہ تھی، کہ چند لمحے وہاں گذارنا محال تھا۔ٹوٹی سڑکوں اور گندے نالے کے کنارے واقع اس محلے میں بدبو کے بھبھکے اڑ رہے تھے۔ میں نے جب ان سے پوچھا کہ کیا بلدیہ اس علاقے میں صفائی نہیں کرواتی ہے، تو لوگوں کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں پچھلے کئی سالوں سے بی جے پی کا کونسلر انتخاب جیت رہا ہے، اسلئے اس علاقے میں خاکروب وغیرہ آتے ہی نہیں ہیں۔ بریلی کے مسلم اکثریتی علاقہ شامت گنج کی تقریباً چار لاکھ آبادی کے لیے صرف ایک بینک اور چار اے ٹی ایم تھے۔ یہ علاقہ زردوزی کے لئے مشہور ہے۔ علی گڑھ کے جو علاقے تالے بنانے کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں مگر ان میںکوئی بینک نہ پوسٹ آفس تھے۔ البتہ ان دونوں علاقوں میں تین چار پولیس اسٹیشن اورکئی درجن پولیس پوسٹیں قائم تھے۔ کئی برس قبل تک میں بی جے پی کے مسلم لیڈروں جیسے شاہنواز حسین اور علماء میں مولانا وحید الدین خان کی اس دلیل کا کسی حد تک قائل ہوگیا تھا کہ بھارت میں مسلمانوں کو منفی ووٹ دینے کے بجائے بی جے پی اور دائیں بازوکی دیگر جماعتوں میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہئے، تاکہ ان کی موجودگی سے ان پارٹیوں کا رویہ مسلمانوں کے تئیں نرم ہو اور سیکولر پارٹیا ں بھی ان کو بس ترنوالہ نہ سمجھیں۔ مگر اس میں اب سب سے بڑی رکاوٹ بی جے پی خود ہے جس نے شدت پسند ہندو نظریات کو اپنا محور بنایا ہوا ہے اور اس میںاقلیتوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں رکھی ہے۔ 2014میں کئی کشمیر ی مسلمانوں نے بی جے پی میں شمولیت کی تھی۔ ان میں حنا بھٹ اور شیخ خالد جہانگیر بی جے پی کا خوف دور کرنے کیلئے وعدے کر رہے تھے کہ پارٹی کشمیر کے خصوصی تشخص اور اختیارات سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کریگی۔ حنا بھٹ نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا ، کہ اگر ایسی کوئی کوشش ہوتی ہے، تو آگے آکر پہلے اس کی مخالفت کریگی۔ پتہ نہیں وہ اب اپنے اس ویڈیو کو دوبارہ دیکھتی ہیں کہ نہیںاور کس طرح یہ لیڈران اپنے ضمیر کو کچل کر بی جے پی کے ا یجنڈہ کے حصہ بن کر اپنے ہم وطنوں کا قافیہ تنگ کر رہے ہیں؟ کشمیر کے بعد تو اب آسام میں بھی مسلم اکثر یتی علاقوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بی جے پی کی پچھلی اوتار یعنی بھارتیہ جن سنگھ، بھارتی سیاست میں 50 کی دہائی سے لے کر 80 تک دائیں بازو کی اہم جماعت تھی۔ مگر اس کے اعلیٰ عہدوں پر کئی مسلمان بھی براجمان تھے۔ اندرا گاندھی کے خلاف 1977ء کے انتخابات میں مسلمانوں اور دہلی کی شاہی جامع مسجد کے امام سید عبداللہ بخاری نے جن سنگھ کے امیداروں کے حق میں مہم چلاکر جتوا بھی دیا تھا۔مگر بی جے پی جس طرح اب ہندو شدت پسندی کو گلے لگا کر مسلمانوںکو معتوب و مغضوب بناکر ووٹ بٹوررہی ہے، اس کے مد نظر کسی باضمیر مسلمان کا بی جے پی کو ووٹ دینا یا اسکی صفوں میں شامل ہونا نا ممکن ہے۔ حکومت گجرات کے ایک سابق افسر ہر ش مندر کے مطابق مسلمانوں کیلئے اتنا برا وقت پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ یہاں تک کی تقسیم کے موقع پر بھی نہیں۔ گو کہ دنیامیں مسلمانوں کی جو آبادی ہے اس کا دسواں حصہ بھارت میں ہے، مگر اس کے باوجود وہ سیاسی یتیم بنائے گئے ہیں۔ ان میں اب تعلیم و ترقی کے بجائے سکیورٹی کا احساس زیادہ ہے جوایک خطرناک علامت ہے۔ اب یہ اہم سوال مسلمانوں کے سامنے ہے کہ کیا وہ سیکولر پارٹیوں کا دامن تھامے رکھیں، جنہیں ان کی تعلیم و ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں اور جو ان کو صرف ووٹ بینک کی نظر سے دیکھتے ہیںیا جنوبی صوبہ کیرالا کا ماڈل اپنا لیں؟ کیرالا میں مسلمانوںکی اپنی سیاسی جماعت ہے اور چونکہ اس صوبہ میں مخلوط حکومت ہی اقتدار میں آتی ہے، اس لئے یہ حکومت میں شریک بھی رہتی ہے۔ سیاسی نمائندگی کی وجہ سے اس صوبہ میں مسلمانوں کی سماجی اور اقتصادی صورت حال خاصی بہتر ہے۔مبصرین کے مطابق شمالی بھارت یا کسی دوسرے صوبے میں ایسی سیاسی جماعت بنانا ناممکن ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ہندو خوف کی نفسیات میں مبتلا ہوکر فرقہ پرست جماعتوں کا دامن تھام کر مسلمانوں کے خلاف متحد ہو جاتے ہیں۔ معروف مصنفہ ارون دھتی رائے نے ایک بار مشورہ دیا تھا کہ بھارت میں ''مظلوموںکا اتحاد‘‘ قائم کرنے کے وافر مواقع ہے کیونکہ مسلمانوںکی طرح دلت اور قبائلی بھی موجودہ نظام کا شکار ہیں۔ اس طرح کا ہی کوئی اتحاد بھارت میں انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے اویسی اس راہ پر گامزن ہیں۔ مہاراشٹرا میں بھی انہوں نے دلت پارٹیوں کے ساتھ ہاتھ ملا کر انتخابات میں شرکت کی تھی۔ مگر سیکولر پارٹیوں نیز چند علماء ان کے خلاف ایسی تیر اندازی کر رہے ہیں، حتیٰ کہ ان کے عقائد پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں، لگتا ہے کہ انتخابات میں شرکت کرکے وہ گناہ عظیم کے مرتکب ہو گئے ہیں۔ معروف صحافی معصوم مراد آبادی کے مطابق سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کو ایک ریوڑ کی طرح ہانکتی رہی ہیں۔ اگر مسلمان ان استحصالی پارٹیوں سے دامن چھڑا کر اپنی سیاست اور اپنی قیادت کا نعرہ بلند کرتے ہیں اور کوئی خود اعتمادی اور خدا اعتمادی کے بل پر سیاست میں کامیابی حاصل کرتا ہے ،تو اسکو بی جے پی کا ایجنٹ بتاکر معتوب کرایا جاتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ مسلمان لیڈران اپنے اندر جھانک کر فیصلہ کریں کہ کیا سیکولر پارٹیوں کا دم چھلہ بن کر وہ قوم کا بھلا کرسکیں ہیں؟کیا ابھی وقت نہیں آیاکہ ایک متبادل حکمت عملی تیار کرنے پر سنجیدہ غور و خوض کیا جائے؟ وزیر اعظم مودی اوران کی پارٹی کے لیڈران بھی ا پنے ضمیر سے سوال کریں کہ کیا 20کروڑ مسلمانوں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھ کر وہ بھارت کو ایک سپر پاور بنانے کا خواب پورا کر سکیںگے؟ (ختم شد)