دہلی سے ستر کلومیٹر دور ایک گاؤں میں کھیتی باڑی کرتے کرتے ادھیڑ عمر قاسم زندگی کے پینتالیس برس گزار چکا تھا لیکن اس نے ان چالیس برسوں میں ایسے حالات کبھی نہ دیکھے تھے اسکے بچے گھر سے باہر نکلتے تو کسی انجانے خطرے سے اس کا دل دھڑک دھڑک جاتا او روہ گھر سے باہر جاتا تو اسکی بیوی گھبرا جاتی، دوازے تک پیچھے پیچھے دعائیں پڑھتی آتی او رپھر چوکھٹ سے لگ کر اسے دیکھتی رہتی ،وہ پہلے ایسا نہیں کرتی تھی لیکن اب اسے ایک انجانے خوف نے آگھیرا تھاقاسم شام ڈھلے واپس آتا تو اسکی گویا جان میں جان آجاتی ،آنکھیں خوشی سے چمکنے لگتیں ،قاسم اکثر ہنستے ہوئے اپنی بیوی سے کہتا نیک بخت ! اب بڑھاپا آگیا ہے تو تو ہماری کیا چوکیداری کرنے لگی ہے ،اس پر وہ جھینپ کر کہتی بڑے کے ابا! اب وہ وقت نہیں رہا مجھے تو یہاںرہتے ہوئے ڈر لگتا ہے اس دن مولوی صاحب کی بیٹی بتارہی تھی کہ ممبئی میں مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر مارا جارہا ہے اس نے بتایا کہ اس نے خود ’’موبیل ‘‘ فون میں وہ فلم دیکھی ہے تین لڑکوں کو اسے بے دردی سے مارا کہ جان چلی گئی ہمارے لئے سب سے بڑا ’’کھترہ‘‘ ہمارا مسلمان ہونا ہے ،اپنی بیوی کے خدشات پر قاسم بظاہر بے پروائی سے کاندھے پر رکھا صافہ جھٹک کرکہتا اری او نیک بخت! یہ ہمارا بھی دیش ہے یہاں ہمارے پرکھوں کی ہڈیاں ہیں ڈر کاہے کا ،خواہ مخوہ پریشان نہ ہوا کروہ کہنے کو تو اپنی بیوی کو یہ کہہ دیتا لیکن سچ یہی ہے کہ اب انجانے وسوسوں سے اسکا دل بھی گھبرانے لگا تھا ،گاؤں میں تو سب اسے جانتے تھے لیکن جاننے سے کیا ہوتاہے جب سے مودی سرکار آئی تھی مسلمانوں کیلئے زندگی عذاب بن گئی ہے ان کا مسلمان ہونا ہی بہت بڑا جرم بن چکا ہے ۔ بیس جون 2018ء کو ایسا ہی ہوا جسکا قاسم کو خدشہ تھا وہ کھیتوں میں کام کر رہا تھا قریب ہی بوڑھا چاچا سمیع الدین بھی اپنا پسینہ بہا رہا تھا کہ اچانک آواز آئی وہ رہے سالے مسلے پکڑو۔۔جانے نہ پائیں ،قاسم اور بوڑھا سمیع الدین ابھی معاملہ سمجھ ہی رہے تھے کہ غضبناک نوجوانوں کا ٹولہ ان کے سر پر پہنچ گیا ،انہو ں نے آتے ہی دونوں کو لاتوں گھونسوں اور تھپڑوں پر رکھ لیا،قاسم پوچھتا ہی رہ گیا کہ بات کیا ہے مگر وہاں تو مادر زاد ننگی گالیاں تھیں اور نفرت انگیز تشدد تھا ،قاسم کو گالیوں کی بوچھاڑ میں پتہ چلا کہ وہ یہاں کھیتوں میں گائے زبح کرنے کی تیاری کررہے تھے ،قاسم اپنی صفائیاں پیش کرنے لگا اور اسکے بعد انہیں واسطے دینے لگا لیکن ان کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا انہوں نے قاسم کو مارمار کر مار ڈالا ،وہ جس مٹی سے ہندو سکھ مسلمان کا فرق کئے بغیر اناج اگاتا تھا اسی زمین پر مسلمان ہونے کے جرم میںاسکی جان لے لی گئی ،سمیع الدین کی سفید داڑھی کا بھی خیال نہ کیا گیا اسے بری طرح سے مارا پیٹا گیاا ور قریب المرگ چھوڑ کر سب ہاتھ جھاڑتے نعرے لگاتے ہوئے چلے گئے ۔ دہلی سے محض ستر کلومیٹر دور گاؤں میںقاسم کے سفاکانہ قتل کی وڈیو دیدہ دلیری کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی ڈالی گئی ،بھارت میں ہندو توا کے سیوک کار اور انتہا پسنداپنے’’شکار کو شکار ‘‘کرنے کی موبائل فون سے وڈیو بناکر سوشل میڈیا کے حوالے کر دیتے ہیں تاکہ یہ وڈیو ان جیسے انسان نما درندوں کو اکسائے کہ وہ بھی حوصلہ پکڑیں اور مسلمانوں عیسائیوںکمزور اقلیتوں میں خوف پھیلے ۔ بھارت میں مسلمان ،عیسائی اور اقلیتی افراد کے ساتھ یہ نفرت انگیز واقعات نئے تو نہیںانتہا پسندو ہندؤں کی براہ راست اقتدار تک رسائی کے بعداقلیتوں کی زندگی دو بھر ہوچکی ہے اس پر تو اقوام متحدہ او ر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو بہت پہلے ہی کچھ کرلینا چاہئے تھالیکن وہ اور مہذب دنیا مسلمانوں کے لہو سے کھلواڑ پر بس لفظوں سے کھیلتے رہے لیکن اب نوبت یہاں تک بڑھ چکی ہے کہ کورونا جیسے وبائی مر ض کی عالمگیر وبا میں بھی بھارتی انتہا پسندوں کے یہ جرائم چھپ نہیں پارہے ، امریکہ کے کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی نے (یو ایس سی آئی آر ایف ) نے بھار ت کو اقلیتوں کے لئے خطرناک ملک قرار دیتے ہوئے اسے بلیک لسٹ کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ 2019ء کا برس بھارت میں مذہبی آزادی کے حوالے سے بدترین رہا،مذہبی آزادی کے حوالے سے اس رپورٹ کے بعد وائٹ ہاؤس نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بھارتی صدر، وزیر اعظم ، وزیر اعظم آفس سمیت چھ اکاؤنٹس کواپنی فہرست سے نکال باہر (unfollow) کردیا جس سے بھارت کو سفارتی محاذ پر شدید سبکی ہوئی لیکن سوال یہ بھی ہے کہ جو کچھ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ہورہا ہے اسکے بعد محض ’’سفارتی ہزیمت‘‘ ہی کافی ہے ؟ ایک مہذب ملک اور قوم اور قوام عالم کاکسی ملک کی نسل پرستانہ نفرت انگیز پالیسیوں پر اتنے ہی ردعمل تک محدود ہونا چاہئے؟ بھارت میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے2019ء کی پہلی ششماہی رپورٹ میں بتایا تھا کہ 2019ء کے ابتدائی چھ ماہ میں ہی مذہبی منافرت کے 181واقعات رپورٹ ہوئے جو گذشتہ تین برسوں کے ان چھ مہینوں میں کبھی نہیں دیکھے گئے،ایمنسٹی کے مطابق مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے چالیس واقعات ریکارڈ پر آئے،عیسائی اقلیت کے چار افراد بھی اس نفرت کا نشانہ بنے جبکہ ہیومن رائٹس فورم نے انکشاف کیا کہ 2015ء سے 2019ء تک گائے ذبح کرنے کے الزام میں انتہا پسند ہندوؤں کے ہجوم کے ہاتھوں مارے جانے والے 44میں سے 36افراد مسلمان تھے او ان تمام واقعات میں پولیس ملزموں کی مددگار ثابت ہوئی،امریکی کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی نے اپنی رپورٹ میں شہرئت ترمیمی ایکٹ کومسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے لئے خطرناک قرار دیا ہے،کمیشن نے تو سفارش کی ہے کہ بھارتی اداروں اور حکام کے امریکہ میں اثاثے ضبط کئے جائیں اور بھارتی حکام پر سفری پابندیاں عائد کی جائیں ظاہر ہے ایسا ہونا ممکن نہیں امریکی اقلیتی کمیشن بھی ہماری اسلامی نظریاتی کونسل جیسا ہی ’’اہم ‘‘ہے بھارت اسلحے کا بڑا خریدار ہے ،امریکہ اسلحہ ساز کمپنیاں اسے کبھی ہاتھ سے نہ نکلنے دیں گی پھر امریکہ میں انڈین نژاد امریکیوں کا ووٹ بھارتی اقلیتوں کے لہو سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ،امریکی کمیشن نے اتنا کچھ کہہ دیابھات کے چہرے سے نقاب نوچ لی یہی بہت ہے،انسان دوست امریکی کمیشن کو اسی پر سلام پیش کئے دیتے ہیں۔