گزشتہ روز پوری دنیا میں ماں بولی کا عالمی دن منایا گیا ، اس موقع پر مجھے پاکستان سرائیکی پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری مرحوم افضل مسعود خان ایڈووکیٹ یاد آ رہے ہیں ، جو کہ قانون دان ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب بصیرت سیاستدان اور دیدہ ور دانشور بھی تھے ۔ ماں بولی کے عالمی دن کے حوالے سے جھوک سرائیکی ملتان میں ان کا خطاب تاریخ کا حصہ ہے اور میں اس کا ذکر آخر میں کروں گا ، پہلے خان صاحب کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے زمانہ طالب علمی سے اپنی سیاست کا آغاز مشرقی پاکستان کے مولانا عبدالحمید بھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی سے کیا اور وہ ان کی جماعت میں سٹوڈنٹ ونگ کا حصہ بنے ، مولانا بھاشانی سے وہ بہت متاثر تھے ملاقاتوں میں اکثر ان کے خیالات و نظریات کا حوالہ دیتے ، خصوصاً طبقاتی سسٹم کے خاتمے کے حوالے سے ان کا ذکر کرتے ۔افضل مسعود کی دعوت پر مولانا بھاشانی ملتان بھی آئے۔ بعد میں افضل مسعود پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ ہوئے اور ان کو ذوالفقار علی بھٹو کی قربت حاصل ہوئی ۔ انہو ںنے پیپلز پارٹی پنجاب کے سینئر نائب صدر کی حیثیت سے بہت کام کیا ۔ جس کے باعث 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے ان کو احمد پور شرقیہ سے پیپلز پارٹی کا ٹکٹ دیا مگر ضیا الحق کے مارشل لاء کی وجہ سے الیکشن نہ ہو سکے ۔ افضل مسعود خان بنیادی طور پر تاریخ کے طالب علم تھے ، انہوں نے تاریخی حالات و واقعات کو قلم بند کیا مگر افسوس کہ اشاعت نہ ہو سکی ۔ ان کو سرائیکی کے علاوہ سندھی ، انگریزی ، رشین ، عربی اور ہندی زبانوں پر عبور حاصل تھا ۔ ہندی دیوناگری رسم الخط لکھنے اور پڑھنے میں روانی رکھتے تھے ۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی ہسٹوریکل سوسائٹیوں کا حصہ رہے۔ شاعری سے بھی لگاؤ تھا اور وہ خود بھی شاعری کرتے تھے جو صرف پرسنل ڈائری تک محدود رہی ۔ خان صاحب کی صاحبزادی محترمہ سعدیہ مسعود لٹریچر کی طالب علم ہیں ، انہوں نے سرائیکی میں ماسٹر کے ساتھ ایم فل بھی کیا ہے ۔ ان کو اپنے والد کے علمی اثاثے کو محفوظ کرنا چاہئے کہ یہ ملک و قوم کیلئے قیمتی سرمایہ ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ افضل مسعود خان نے وسیب کی تاریخ ، تہذیب و ثقافت کے حوالے سے بہت کچھ لکھا ، خصوصاً وادی ہاکڑہ ( چولستان ) کے حوالے سے ان کا بہت کام ہے ۔ 1969ء میں افضل مسعود خان نے بہاولپور صوبہ تحریک کے حوالے سے بھی کام کیا ، وہ بہاولپور صوبہ تحریک کے رہنما ریاض ہاشمی مرحوم کو اپنا استاد کہتے تھے بعد ازاں ریاض ہاشمی مرحوم اور سیٹھ عبید الرحمن نے بہاولپور صوبہ محاذ کو سرائیکی صوبہ محاذ میں تبدیل کیا تو افضل مسعود خان اس کا حصہ بنے اور سرائیکی صوبہ تحریک کے لئے بہت کام کیا ۔ مجھے یاد ہے کہ ریاض ہاشمی مرحوم اور راقم الحروف بندہ ناچیز سرائیکی صوبہ محاذ کے اجلاسوں میں شرکت کیلئے خانپور سے بہاولپور جاتے تو ہمارا پہلا قیام افضل مسعود خان کے ہاں احمد پور شرقیہ میں ہوتا اور وہاں سے سیٹھ عبیدالرحمن مرحوم کے گھر اجلاسوں میں شرکت کرتے ۔ ان دنوں سابق وفاقی وزیر ملک فاروق اعظم بھی سرائیکی صوبہ محاذ کا حصہ تھے اور ان کی کوٹھی پر بھی سرائیکی صوبہ محاذ کے اجلاس ہوتے رہے ۔ افضل مسعود خان کا ہمیشہ نقطہ نظر یہ رہا کہ سرائیکی صوبہ پاکستان کی ضرورت ہے اس سے وفاق متوازن ہوگا اور چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی ختم ہوگا اور پنجاب کا بھی اس میں نقصان نہیں کہ پنجاب کے اشرافیہ کی وجہ سے سرائیکی وسیب اور چھوٹے صوبوں کی طرف سے جو نفرت پنجاب کے حصے میں آتی ہے وہ ختم ہو جائے گی ۔ 80کی دہائی میں افضل مسعود خان نے پیپلز پارٹی کو خیر آباد کہا اور بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ کی جماعت پاکستان سرائیکی پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی اور اپنی وفات 12 جون 2014ء تک اس کا حصہ رہے ۔ انہوں نے پارٹی میں مرکزی سینئر نائب صدر اور مرکزی سیکرٹری جنرل کے عہدوں پر کام کیا ۔ ان کا شمار بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ کے معتمد ساتھیوں میں ہوتا تھا ۔ جیسا کہ میںنے اپنے کالم کے آغاز میں اس بات کا ذکر کیا کہ 21 فروری ماں بولی کے حوالے سے افضل مسعود خان کے خیالات آپ کی خدمت میں پیش کروں گا تو واقعہ اس طرح ہے کہ 21 فروری 2012ء کو جھوک سرائیکی میں تقریب تھی اور افضل مسعود خان مہمان خصوصی کی حیثیت سے تشریف لائے تھے اس موقع پر انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ پنجابی سمیت تمام ماں بولیوں کو اس کا حق ملنا چاہئے ، ان کا کہنا تھا کہ بحیثیت زبان پنجابی بھی اتنی ہی مظلوم ہے جتنی کہ سرائیکی یا دیگر زبانیں کہ ماسوا سندھی کوئی دیگر پاکستانی زبان بچوں کو نہیں پڑھائی جاتی ۔ اردو کسی خطے کی زبان نہیں ہے ، یہ مختلف زبانوں کا مجموعہ ہے ۔ اس کی بنیاد ہندی ہے اور لکھنو میں تیار ہوئی ۔ انگریزوں نے اپنے مقاصد کے ساتھ اردو ہندی تنازعہ پیدا کر کے اسے الگ حیثیت دلوائی ، یہ تاریخی حقائق ہیں جسے تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ انگریز نے 1849 ء میں جب ہندوستان پر قبضہ مکمل کیا تو اس نے اردو کو پروان چڑھایا کہ اس کو دھرتی کی اصل زبانوں کی طاقت کا علم تھا، انگریز نے یہ بھی کیا کہ مختلف قوموں کو مختلف صوبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ گڈ مڈ کر دیا تاکہ وہ متحدہ طاقت کی شکل میں سامنے نہ آ سکیں، اس نے صوبائی حد بندیاں اپنی استعماری ضرورتوں کے تحت مقرر کیں، اردو کو پروان چڑھانے کا ایک مقصد مغلوں کی فارسی کو رخصت کرنا دوسرا دھرتی کی اصل زبانوں کو نیست و نابود کرنا تھا، انگریزوں کو پتہ تھا کہ اردو مصنوعی زبان ہے، اس کا اپنا کوئی خطہ یا اپنا کوئی جغرافیہ نہیں، اس زبان سے کوئی ایسی قوم وجود میں نہ آ سکے گی جس سے اسے خطرہ ہو، انگریزوںنے ہی اپنے مذموم مقاصد کے تحت سر سید احمد خان جیسے حامیوں کے ذریعے اردو کو پروان چڑھانے کا کام لیا۔ جن زبانوںکے بولنے والوں کی تعداد قلیل ہو ، ریاستی امور میں بھی وہ زبان شامل نہ ہو، تعلیمی اداروںمیں بھی نہ پڑھائی جاتی ہو، وہ مٹ جاتی ہے اور ختم ہو جاتی ہے، یہی سلوک پاکستانی زبانوں کے ساتھ ہو رہا ہے، اس لئے پاکستانی زبانیں ختم ہو رہی ہیں،کسی بھی زبان اور ثقافت کے ختم ہونے کا مقصد خطے کی تاریخ و تہذب کا اختتام اور موت سمجھا جاتاہے لیکن ہمارے حکمرانوں کو اس کی پرواہ نہیں۔