اک دل بنا رہا ہوں میں، دل کے مکین میں مشکل سے بات بنتی ہے مشکل زمین میں انسان اپنے آپ کو پہچانتا نہیں اک سانپ بولتا ہے سپیرے کی بین میں یہ انسان ہی کا کام ہے کہ اس نے سانپ کو بھی اس کی بل سے نکال کر اپنی پٹاری میں بند کر لیا۔ سانپ کیا شے ہے، اس نے تو شیر کو قابو کر لیا اور سرکس میں لے آیا۔ کونسا تماشہ ہے جو انسان نے برپا نہیں کیا۔ اس نے طوطے سے بھی توپ چلوا دی اور کبوتر کو پیغامبر بنا دیا۔ ہاتھی پر سواری کی۔ اس سے تو بچھو بھی ڈرتا ہے۔ کسی نے بچھو سے پوچھا تھا کہ تم سردیوں کو باہر کیوں نہیں نکلتے تو بچھو نے جواب دیا’’انسان گرمیوں میں کونسا ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں جو سردیوں میں بھی باہر نکلنے کا خطرہ مول لوں‘‘ یہ بات میں نے سعدی شیرازی سے لی ہے۔ ہم نے جب سے سعدی کو نظرانداز کیا تو سعد نہیں رہے۔ یہاں سعد سے مراد میں نہیں بلکہ نیک آدمی ہے۔ اب ’’مراد‘‘ سے بھی مجھے مراد سعید یاد آ گئے کہ انہوں نے آج کمال کا بیان دیا ہے موٹروے زیادتی کیس کے حوالے سے فرماتے ہیں ’’بحیثیت مرد واقعے کا میں اور ریاست ذمہ دار ہے‘‘۔ اس پر تبصرہ تو پیپلز پارٹی کے پٹیل ہی کر سکتے ہیں۔ تا ہم شیریں مزاری کا کہنا دلچسپی سے خالی نہیں کہ ’’اگر مرد اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکتے تو انہیں گھر میں بند کیا جائے‘‘ میں تو اس خواہش کے مضمرات سوچ سوچ کر مسکراتا رہا: راستے بند کیے دیتے ہو دیوانوں کے ڈھیر لگ جائیں گے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے نہ جانے مجھے تو سارے بیانات ہی عجیب و غریب لگتے ہیں کہ ان میں حکمت و تدبر کی کمی نظر آتی ہے۔ آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ لوگوں کا مطالبہ تو یہ ہے کہ درندہ صفت لوگوں کو سرعام پھانسی دی جائے۔ جیسے کہ ضیاء الحق نے پپو کے قاتلوں کو دی تھی۔ اس پر وزیر اعظم صاحب مشورہ فرما رہے ہیں کہ انہیں پھانسی دی جاسکے تو پھر انہیں مردانہ صلاحیت ہی سے محروم کر دیا جائے۔ آپ خود سوچیے کہ ایسے میں عمر بھر کی محرومی لے کر باہر آئیں گے تو وہ ردعمل میں زیادہ مسئلہ نہ بن جائیں گے۔ وہ لڑکے جو کانوں میں بالیاں پہنتے ہیں پونی کر کے پورا میک اپ کر کے خوش لباس بن کر نکلتے ہیں کیا وہ جرم نہیں کرتے۔ ہونا چاہیے کہ ’’نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری‘‘ خان صاحب کے بیان تقریباً سارے ہی دلچسپ ہوتے ہیں۔ وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ’’میری جدوجہد نے مجھے مشکل سے نکالا اور پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا‘‘ سبحان اللہ! ۔ گو اس میں خوبئی تقدیر بھی تھی مگر آپ کی کوشش بھی اچھی خاصی رہی۔ آپ کسی مشکل سے نکل آئے ہوں گے مگر وللہ قوم تو مشکل میں ہے۔ کبھی کوئی ایشو تو کبھی کوئی۔ چین سے بیٹھنا کسی کو نصیب نہیں۔ باقی رہی بات دیوالیہ کی تو کاروباری لوگوں کی اور کسانوں کی بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے۔ہائے ہائے میر تقی میر کہاں یاد آیا: دیواریں تنی ہوئی کھڑی تھیں اندر سے مکان گر رہا تھا دوبارہ بیانات کی بات کر لیتے ہیں کہ جس طرح سوال آدھا علم ہوتا ہے اسی طرح بیان بھی بیان دینے والے کی شخصیت کا کچھ نہ کچھ تعارف ہوتا ہے۔ ابھی میں نے سوشل میڈیا پر نظر ڈالی تو وہاں مراد سعید کے مردانہ بیان کا تیا پانچا ہوا ہے۔ سچ کہتے ہیں کہ پہلے تولو اور پھر بولو۔ میرا خیال ہے کہ بعض لوگوں کو ویسے ہی مذاق بننے کا شوق ہوتا ہے۔ کس کو بھولا ہو گا کہ شیخ رشید نے بلاول کو بلو کہا تو کتنی دیر تک اس کی بازگشت رہی۔ شکر ہے اب کوئی بلورانی نہیں کہتا کہ بلاول میں بھی کچھ کچھ میچورٹی آ گئی ہے اور اس نے کچھ دلیرانہ بیانات بھی دے ڈالے۔ بلاول کا عمران خان کو چاچا جی کہنا بھی اچھا لگا تھا مگر سب کے چاچا جی تو مستنصر حسین تارڑ ہیں۔ مجھے کیا کیا کچھ یاد آ رہا ہے کہ اصغر خان تک نہیں بچ سکے کہ بھٹو انہیں آلو کہتے تھے اور ہمارے ایک بزرگ دوست کو بھٹو نے کرنل ککڑی بھی کہا تھا اور وہ نام آج تک ا کے ساتھ پیوست ہے۔ چلیے ایک شعر یاد آ گیا: نام میں رکھا بھی کیا ہے کام دیکھا چاہیے حسن ہے تو حسن کو بے نام دیکھا چاہیے آپ یقینا سوچتے ہوں گے کہ میں کیا موضوع لے بیٹھا ہوں۔ یہ موضوع آپ کے اپنے بس میں تو نہیں ہوتا۔ قلم خود ہی بے قابو ہو جاتا ہے۔ پرویز مشرف بھی آئے دن کوئی ایسی بات کر دیتے تھے کہ کالم نگاروں کا موضوع بن جاتے تھے مثلاً ’’وردی میری کھال ہے‘‘۔ ’’خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے‘‘ ویسے بھی ذرا سی ڈگر سے ہٹی ہوئی بات یا کوئی اچھوتا بیان تھوڑی دیر کے لیے حالات کی تلخی کو کم کر دیتا ہے اور ایک بے ساختہ مسکراہٹ لبوں پر آ جاتی ہے۔ قدرت نے سارے انتظامات کر رکھے۔ یہ قدرت بے رحم ہے تو مرہم کا اہتمام بھی کر دیتی ہے۔ یہ دھوپ چھائوں اور اونچ نیچ زندگی کے ساتھ ہی ہے۔ مگر سچ کو سرخرو ہونا ہے اور باطل کو مٹ جانا ہے۔ جو بھی ہے آپ بیان دیتے وقت ضرور سوچا کریں وگرنہ وضاحتیں کرنا پڑیں تو بات اور بڑھ جاتی ہے ’’بات اپنی وضاحتوں سے بڑھی، ہم نے سوچا تھا بات ٹل جائے‘‘ بات ٹلی نہیں تو زیادتی کیس میں سی سی پی او نے متنازع بیان پر قوم سے معافی مانگ لی اور کہا کہ مقصد دل آزاری نہیں تھا۔ غلط الفاظ منہ سے نکل گئے ۔پولیس کی کارکردگی تو آپ یہاں سے اندازہ لگایں کہ 2013ء میں اسی بدبخت عابد ملہی نے فورٹ عباس میں ایک شخص کے سامنے اس کی بیوی اور ننھی بیٹی کو ریپ کیا اور پولیس کی ملی بھگت سے بچ نکلا۔ اس کے بعد اس سے جو پولیس نے کام لیا ہو گا وہ ذہن میں آ سکتا ہے۔ آپ ہائی کورٹ کی طرف سے جاری بیان ہی کو دیکھ لیں۔ کہا گیا کہ ’’پتہ نہیں تحقیقات ہو رہی ہیں یا ڈرامے بازی‘‘ یہی عوام کی زبان ہے۔نہایت صائب حوالہ دیا گیا کہ ’’چور کے ہاتھ کاٹے جائیں اور منع کرنے والے کی زبان‘‘ اسی لیے عوام بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ بچوں کے قاتلوں کو پھانسی پر لٹکائو اور مخالفت کرنے والوں کو بھی ان کے ساتھ۔ اب جھوٹ نہیں چلے گا۔ کرن بہاری کا شعر یاد آ گیا: سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں