اس رات کشمیر پر بھارت کے آئینی حملے کو پورا ایک برس گذر کیا تھا۔ اس رات میں کشمیرمیں بہنے والے لہو کے بارے میں سوچ رہا تھا۔اس رات میں سوچ رہا تھا کہ پوری دنیا اگر اپنے سیاسی اور معاشی مفادات میں قید ہے تو کم از کم مسلمان ممالک کو تو کشمیری لوگوں کے لیے کلمہ حق ادا کرنا چاہئیے۔ حالانکہ میں میں ذاتی طور پر کشمیر کو مذہبی معاملہ کم اور انسانی معاملہ زیادہ سمجھتا ہوں۔ میری نظر میں کشمیر وہ خطہ ہے جہاں انسانی حقوق کی جتنی دھجیاں اڑائی گئی ہیں؛ اتنی اور کہیں نہیں اڑائی گئی۔ یہی سبب ہے کہ کشمیر کے حق میں لکھنے کے باعث مشہور ادیبہ اور ناول نگار ارون دھتی رائے مودی حکومت کی آنکھ میں تنکہ بنی ہوئی ہے۔ مذہب،معاشرے اور دنیا کے بارے میں اس خاتون کے خیالات کیسے ہیں؟ ان کو سمجھنے کے لیے ان کی کتاب ’’گاڈ آف سمال تھنگس‘‘ کافی ہے مگر ایک لبرل سوچ والی رائٹر بھی جب کشمیر کے بارے میں بات کرتی ہے تو مودی حکومت کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔کچھ عرصہ قبل راقم الحروف نے ایک یورپی ڈپلومیٹ کو دیکھا جو کشمیر کے بارے میں بات کرتے ہوئے بچوں کی طرح بلک بلک کر رورہا تھا اور پوری دنیا کو بتا رہا تھا کہ بھارتی فوجی کس طرح کشمیری خواتین کی آبرو ریزی کرتے ہیں۔ مگر مسلمان دنیا کا انوکھا اسٹائل ہے۔ مسلمان ممالک کشمیر کے لیے آواز بلند کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ خاص طور پر وہ عرب ممالک جہاں بہت سارے بھارتی شہری ملازمت کرتے ہیں اور اپنے ملک میں پیسہ بھیجتے ہیں اور ان کے پیسوں سے جو ٹیکس حکومت کے حصے میں آتا ہے ؛ وہ پیسے بھی ان رقم میں شامل ہوتے ہیں جس رقم سے بھارت امریکہ،روس،برطانیہ اور اسرائیل سے ہتھیار خریدتا ہے اور ان ہتھیاروں میں وہ ہتھیار بھی ہوتے ہیں جو ہتھیار کشمیری مسلمانوں کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔ایک وقت ایسا تھا کہ جب پوری دنیا میں آزادی کی تحریکیں عروج پر تھیں۔ وہ تحریکیں نہ صرف ایشیا اور وسطی ایشیا بلکہ یورپ اور افریقہ تک پھیلی ہوئیں تھیں مگر جب سرد جنگ کے بعد عالمی محاذ آرائی کا ماحول سکڑ گیا تب بہت ساری تحریکیں دم توڑ گئیں مگر کشمیر کی تحریک آزادی آج بھی اپنا پرچم بلند کیے چل رہی ہے۔ یہ تحریک بالکل اس شعر کا عکس ہے : بڑھتے بھی چلو ؛ کٹتے بھی چلو/بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت/چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے/منزل پہ ہی ڈالے جائیں گے کشمیر کس قدر تنہا ہے؟ کشمیر کس قدر ثابت قدم ہے؟ کشمیر کس طرح اپنے غم کو اپنی طاقت میں تبدیل کرہا ہے؟ میں ان باتوں پر سوچ رہا تھا کہ اچانک میرا نوجوان بیٹا لاؤنج سے بھاگتا ہوا کمرے میں داخل ہوا اور کہنے لگا کہ ’’بیروت پر ایٹم بم سے حملہ ہوا ہے‘‘ یہ الفاظ سن کر میرے ہوش اڑ گئے۔ میں کمرے سے باہر آیا اور ٹی وی دیکھنے لگا۔ میں نے بیٹے سے کہا مجھے نہیں لگتا کہ یہ ایٹم بم ہے۔ اس نے جواب دیا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ منی ایٹم بم ہو۔ ’’ہوسکتا ہے‘‘ میں بھی اس آگ اور دھوئیں کو دیکھ کر شک میں پڑ گیا۔ پھر چند منٹوں کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ بیروت کے ساحلی علاقے میں بہت بڑا بم دھماکہ ہوا ہے۔ اس وقت کے سے لیکر اس وقت تک آپ سب کی طرح میری نظروں سے بھی بیروت میں ہونے والے دھماکے کی وڈیوز کلپس اور تصاویر گذر رہی ہیں۔ لبنان کے لوگوں اور خاص طور پر اہلیان بیروت کے لیے یہ دھماکے نئے نہیں ہیں۔ بیروت کے لوگ دھماکوں میں بڑے ہوئے ہیں۔ جس دن بیروت میں سو سے زیادہ انسانوں کو لقمہ اجل بنانے اور دور ہزار سے زیادہ انسانوں کو شدید زخمی کرنے والا دھماکہ ہوا اس دن کے دوسرے دن لبنان کے وزیر اعظم رفیق الحریری کے مقدمے کا فیصلہ سنایا جانے والا تھا۔ لبنان کے سابق وزیر اعظم رفیق الحریری بھی بم دھماکے میں قتل ہوئے تھے۔ بیروت کے بارے میں جب بھی سوچا ہے تب ذہن میں اردو کے انوکھے ساعر حمایت علی شاعر کے مجموعہ کلام کا نام یاد آجا تا ہے۔ ان کے ایک مجموعہ کلام کا نام ہے ’’آگ میں پھول‘‘ بیروت مجھے ہمیشہ آگ میں جلتے پھولوں کی طرح محسوس ہوا ہے۔ بیروت کے بارے میں پوری دنیا کہتی ہے کہ یہ عرب دنیا کا آزاد اور آرٹسٹک شہر ہے۔ یہ بیروت ہی ہے جس کی گلیوں میں آپ کو پھول کے انبار نظر آئیں گے۔ یہ بیروت ہی ہے جہاں مصوروں کی نمائشیں جاری رہتی ہیں۔ یہ بیروت ہی ہے جہاں موسیقی کے متوالے دل سے گانے والوں کے نغمے سن کر مست ہو جاتے ہیں۔ یہ بیروت ہی ہے جہاں عرب ممالک کے مجموعی کلچر آپس میں اس طرح ملے ہیں جس طرح قوس قزح میں سارے رنگ مل جاتے ہیں۔ یہ بیروت ہی ہے جس کے بارے میں فیض صاحب نے لکھا تھا: بیروت نگار بزم جہاں/بیروت بدیل باغ جناں/بچوں کی ہنستی آنکھوں کے/جو آئینے چکنا چور ہوئے/اب ان کے ستاروں کی لو سے/اس شہر کی راتیں روشن ہیں/اور رخشاں ہے ارض لبنان/بیروت نگار بزم جہاں‘‘ بیروت وہ شہر ہے جہاں فیض صاحب نے زندگی کے چند برس بتائے تھے۔ ان کی بیروت کے حوالے سے یادیں کس قدت خوبصورت ہیں۔ کس قدر حسین ہے وہاں کا ساحل اور وہاں کے لوگ کتنے پیار کرنے والے اور کتنے بہادر ہیں۔ ان لوگوں کو محبت کا اصل مطلب آتا ہے۔ کیوں کہ انہوں نے شاعروںاور فنکاروں کے ساتھ وقت گزارا ہے۔ انہوں نے مصوروں اور موسیقاروں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ محبت کے غم سے کس طرح دل کو سجایا جاتا ہے۔ بیروت کے لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے محبوبوں کے لاش اٹھائے ہیں۔ ایسی اذیت سے گذرنے والا ایک عرب شاعر نزار قابابی بھی تھا۔ نزار قابانی پیدا تو شام میں ہوئے مگر ان کی زندگی بیروت میں گذری۔ اس نے بیروت میں محبت کی شادی کی تھی۔ ان کی جیون ساتھی کا نام بلقیس الراوی تھا۔ وہ خاتون نہ صرف خوبصورت تھی بلکہ اپنی ذہانت اور اپنے ذوق کی وجہ سے پوری عرب دنیا میں جانی پہچانی جاتی تھیں۔ وہ بیروت ایمبیسی میں ملازم تھیں۔ ایک دن جب اس کے لیے کچھ لانے کے خاطر نزار قابانی ایمبیسی سے کچھ دیر کے لیے باہر گیا تو اس وقت اسرائیل نے ایمبسی پر ہوائی حملہ کیا اور بم دھماکے سے ایمبیسی پتھروں کا ڈھیر بن گئی۔ اس حملے میں بلقیس الراوی مر گئی۔ اس کے موت پر نزار قابانی نے لکھا تھا: ’’مجھ کو معلوم تھا کہ قتل کی جائے گی اور اس کو معلوم تھا کہ میں مارا جاؤں گا دونوں پیشن گوئیاں سچ ثابت ہوئیں جب کوئی خوبصورت عورت مرتی ہے تب دھرتی توازن کھو بیٹھتی ہے چاند سو برس کے لیے سوگ کا اعلان کرتا ہے اور شاعری بیروزگار ہوجاتی ہے‘‘ بیروت میں ہونے والے دھماکے کے بارے میں دکھ برداشت کرتے ہوئے میں سوچ رہا ہوں کے کشمیر اور لبنان آگ میں پھول ہیں۔ آگ میں پھولوں کو جلتا ہوا دیکھ کر کوئی تو شاعر اس طرح محسوس کرتے ہونگے جس طرح بلقیس کی موت پر نزار قابانی نے محسوس کیا تھا۔