آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی وزارت خارجہ کا دورہ کیا۔ جہاں انہوں نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے ملاقات کی جس میں علاقائی سکیورٹی اور افغان امن عمل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر آرمی چیف نے کہا کہ بہتر سکیورٹی کی صورتحال سے ہی بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ ملاہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کے لئے امن و امان کی صورت حال کا بہترین ہونا اولین شرط ہے، اگر ملک میں امن و امان ہو گا تو بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے میں دشواری نہیں ہو گی۔ درحقیقت بیرونی سرمایہ کار سب سے پہلے اپنے کاروبار کا تحفظ چاہتے ہیں، اگر سکیورٹی کی صورت حال مخدوش ہو گی، آئے روز جلائو گھیرائو اور ہڑتالیں ہونگی، بھتہ خوری اور جگا ٹیکس عام ہو گا تو سرمایہ کار کبھی بھی پیسہ خرچ نہیں کرے گا۔ ماضی قریب میں کراچی کی صورت حال سے تنگ آ کر اکثر بزنس مینوں نے یہاں سے کاروبار دوسرے ملکوں میں منتقل کر دیئے تھے کیونکہ بانی ایم کیو ایم کی ایک کال پر کاروبار زندگی معطل اور جلائو گھیرائو شروع ہوجاتا تھا اور یوں ایک دن میں تاجروں کواربوں روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا تھا‘جبکہ حکومت بھی ان کے نقصان کا ازالہ نہیں کرتی تھی۔ کراچی قومی معیشت میں انجن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر کسی گاڑی کا انجن ہی فیل ہو تو وہ منزل مقصود تک کیسے پہنچے گی؟ عجب تماشہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بانی ایم کیو ایم کی میڈیا پر پابندی کی مذمت کر رہے ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی 10برس سے اقتدار میں ہے لیکن وہ آج تک کراچی کے رہائشیوں کو صاف پانی اور سفری ٹرانسپورٹ فراہم نہیں کر سکی، ماضی کی نسبت کراچی میں تجارتی سرگرمیاں کافی بہتر ہیں، سرمایہ کار اب پاکستان کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔ یقینی طور پر کراچی کی روشنیوں کی بحالی کا کریڈٹ پاک فوج کو جاتا ہے جنہوں نے اپنا خون پیش کر کے کراچی کا امن لوٹایا ہے۔یہ قربانیاں کسی صورت ضائع نہیں ہونی چاہئیں۔ خیبر پی کے میں سمگلنگ‘ اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری عروج پر تھی ،کالعدم تحریک طالبان سرعام تاجروں سے بھتہ وصول کرتی تھی، اقلیتیں غیر محفوظ تھیں جبکہ خواتین کی تعلیم کا سلسلہ بھی بند ہو چکا تھا۔ پشاورسے آگے کوئی غیر ملکی سفر نہیں کرتا تھا اور شمالی علاقہ جات کی طرف جانا ممنوع بن چکا تھا۔2013ء کے عام انتخابات کے بعد تواتر سے یہ خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں کہ طالبان کسی وقت بھی اسلام آباد پر حملہ کر سکتے ہیں۔ سیاستدان خوف کے باعث گھروں میں محصور تھے، پیپلز پارٹی نے طالبان کے ڈر سے الیکشن کمپین ہی نہیں کی تھی لیکن تب پاک فوج نے حکومتی رٹ بحال کر کے سرمایہ کاروں، غیر ملکی سیاحوں اور خیبر پی کے کے باسیوں کو تحفظ دینے کا عزم کیا۔ پاک فوج نے دھرتی ماں پر سینکڑوں جوان قربان کئے جس کی بدولت نہ صرف خیبر پی کے بلکہ شمالی اورجنوبی علاقوں میں بھی آج قانون کی رٹ قائم ہے۔ فاٹا جیسے علاقے میں امن و امان کی بدولت ہی الیکشن کا انعقاد ممکن ہوا۔ ماضی کی نسبت آج خیبر پی کے میں سرمایہ کاراور عوام کی جان و مال محفوظ ہے۔ سی پیک منصوبے پر غیر ملکی انجینئر بلا خوف و خطر کام کر رہے ہیں۔ جبکہ خیبر پی کے میں پن بجلی کے کئی منصوبوں پر غیر ملکی سرمایہ کاروں نے پیسہ لگا رکھا ہے۔ خیبر پی کے کے تاجر بھتہ ‘رشوت اور جگا ٹیکس دیئے بغیر آج صوبے بھر میں کاروبار کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت اور آرمی چیف ملک کو خوشحالی کی جانب لیجانے میں ایک پیج پر ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں قومی معیشت کے موضوع پر سیمینار سے خطاب میں کھل کر پیغام دیا تھا کہ بڑی مشکل سے ملک کو انارکی اور دہشت گردی سے پاک کیا ہے۔ لہٰذا اس نازک صورتحال کے دوران ملک میں جلسے جلوس اور احتجاج مت کریں ۔درحقیقت ایک دن کی ہڑتال سے ملک کو دس سے 15ارب ڈالر کا نقصان پہنچتا ہے جبکہ ہم تو کوڑی کوڑی کو ترس رہے ہیں ،جو آدمی تنکا تنکا اکٹھا کر کے آشیانہ بنائے اسے ایک ہی ہلے میں اکھاڑنے کا صدمہ بیان سے باہر ہے۔ ملک میں خوشحالی کے لئے معیشت کا درست سمت میں گامزن ہونا ناگزیر ہے۔ اپنے مفاد کے لئے دوسروں کے سامنے جھکنے اور کشکول تھام کر بھیک مانگنے والوں کی قدر نہیں ہوتی۔ اگر ہم حقیقی معنوں میں خود مختار ریاست بننا چاہتے ہیں تو حکومت کو بھی کڑے فیصلے کرنا ہونگے۔ جلسے اور جلوسوں کے ذریعے افراتفری پھیلانے والوں سے سختی سے نمٹنا جائے اور سخت فیصلوں کا کڑوا گھونٹ پی کر ملک میں امن و امان کی صورت حال یقینی بنائی جائے۔ امن اور انصاف قائم کر کے ہم ملک کو خوشحالی کے راستے پر گامزن کر سکتے ہیں۔ گو ہمیں وقتی طور پر بہت مشکل پیش آئے گی لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ مالک ارض و سماء نے ہر مشکل کے بعد آسانی کا وعدہ کر رکھا ہے ۔ آج کے سخت فیصلوں کے اثرات مستقبل میں خوشحالی کی صورت میں نظر آئیں گے۔ پاک فوج اپنے حصے کی شمع جلا کر ملک کو روشن کر رہی ہے۔ سیاست دانوں کو بھی اپنے اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے۔ اگر عسکری اور سیاسی قیادت ایک پیج پر ہو گی تو ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہو گا۔بیرونی سرمایہ کار ایک عرصے کے بعد پاکستان کی جانب راغب ہو رہا ہے‘ لیکن ساتھ ہی اپوزیشن نے بھی بازو چڑھا لئے ہیں۔ اپوزیشن اپنی ساکھ کو بچانے کے لئے جلسے اور ہڑتالوں کا انعقاد کر کے ترقی کے پہیے کو روکنے کی تگ و دو کر رہی ہے۔ خدانخواستہ اگر اپوزیشن نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو ایک مرتبہ پھر بیرونی سرمایہ کاری رک جائے گی جس کا نقصان غریب عوام کو اٹھانا پڑے گا۔ اس لئے اپوزیشن جماعتیں ترقی اور ملکی مفاد کی خاطر سرمایہ کاری کو ایک موقع دیں تاکہ ہمارے ملک سے مہنگائی اور غربت کا خاتمہ ہو سکے۔