برطانیہ میں الیکس کے ہاں ایک کے بعدایک بیٹا پیدا ہوتا چلا گیا۔ وہ اور اس کا خاوند ڈیوڈ ان لڑکوں کو خوش آمدید کہتے چلے گئے۔ بچوں کی کثرت سے وہ ذرا نہیں گھبرائے۔ انہیں بچوں کی پرورش کے لئے حکومتی امداد مل سکتی تھی مگر الیکس نے کہا کہ ڈیوڈ کی آمدنی کافی ہے اس لئے ہم امداد کیوں لیں، سب سے بڑے بیٹے کی عمر 17سال اورسب سے چھوٹے بیٹے کی عمر 2سال ہے۔ مسلسل دس بیٹوں کے بعد الیکس کے ہاں گیارہویں بچے کی پیدائش متوقع تھی۔ دونوں میاں بیوی نے ایک بار بھی الٹرا سائونڈ کے دوران بچے کی جنس معلوم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ انہیں یقین تھا کہ اب پھر بیٹا پیدا ہو گا۔ جب اگست کے آواخر میں 39سالہ الیکس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی تو انہیں بے حد حیرت ہوئی‘ بہت ہی خوشگوار حیرت۔ انہوں نے بیٹی کا نام کیمرون رکھا۔ الیکس کا کہنا ہے کہ سارے گھر کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نئی گڑیا کے ساتھ چاند پر پہنچ گئے ہیں۔ گھر کا سارا کام خودکرتی ہے۔ وہ جاب بھی کرتی ہے اور فٹنس انسٹرکٹر ہے۔ کسی نے الیکس سے پوچھا کہ کیا بیٹی کی تلاش میں انہوں نے ولادت کا سلسلہ جاری رکھا۔ الیکس کہتی ہے بچے زیادہ ہی اچھے۔ میں ہر بار جب امید سے ہوتی ہوں تو اس کا کہنا ہے کہ جاننے والے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہیں۔ مگر ہمیں ایسے سوالوں کی کبھی پروا نہیں ہوئی۔ البتہ کبھی کبھی ہم میاں بیوی آپس میں بیٹھ کر ہنستے ہیں اور کہتے ہیں یہ ہم نے کیا کیا مگر اس کے ساتھ ہی جب دھم سے بچے اپنی شرارتوں سمیت آ دھمکتے ہیں تو ہمیں بہت اچھا لگتا ہے۔ الیکس کے دس بیٹوں کے بعد گیارہویں بیٹی کا دلچسپ واقعہ پڑھ کر مجھے طائف کے کالج میں اپنے ایک شامی کولیگ یاد آ گئے۔ یہ شامی دوست نہایت دیندار شخصیت کے مالک تھے۔ لمبی داڑھی اوردینی وضع قطع ۔ ہمیں معلوم ہوا کہ ان کی 9بیٹیاں ہیں اور بیٹا کوئی نہیں۔ مجھے آج بھی برسوں پرانی بات یاد ہے کہ وہ کبھی کبھی سکول سے اپنی چھوٹی بیٹی کو کالج لایا کرتے تھے۔ بچی کا نام تماضرتھا۔ شامی دوست نے بتایا کہ قدیم عربی کی مشہور شاعرہ حضرت خنساء کا اصل نام تماضر تھا۔ زمانہ جاہلیت اور عہد اسلام کے ابتدائی دورمیں خنساء عربی کی سب سے بڑی مرثیہ گو شاعرہ تھیں۔ خنساء کے دو بھائی تھے جو کسی قبائلی جنگ میں مارے گئے۔ خنساء ساری زندگی اپنے بھائیوں کے لئے آنسوبہاتی اورمرثیہ گوئی کرتی رہیں۔ قبول اسلام کا اعجاز دیکھیے کہ دو بھائیوں کے لئے ساری زندگی آنسو بہانے والی خنساء نے جنگ قادسیہ میں اپنے چار بیٹوں کو جہاد کی عظمت کے بارے میں پرجوش خطبہ دیا اور انہیں محاذ جنگ پر روانہ کیا جہاں وہ چاروں شہید ہو گئے۔ چار جوان بیٹوں کی شہادت پرعرب کی سب سے بڑی خاتون شاعرہ خنساء نے سجدہ شکر ادا کیا۔ بات ذرا دور نکل گئی۔ یہ ہمارے شامی دوست ایک روز کالج آئے تو لمبی داڑھی خشخشی ہو چکی تھی اور لباس کی تراش خراش بھی خاصی فیشن ایبل نظر آئی۔ میری ان سے بے تکلفی تھی۔ پوچھا کیا ماجرا ہے؟ کہنے لگے تماضر کے بھائی کے لئے ایک شادی کر لی ہے۔ دیکھیے کر ناخدا کا کیا ہوا کہ دوسری بیگم سے بھی شامی دوست کی دو اور بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ گویا گیارہ بیٹیاں اور بیٹا کوئی نہیں۔ یہ سب حکم ربیّ ہے۔ سورۃ الشوریٰ کی 49ویں اور 50ویں آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت پیدا کرتا ہے جو چاہے جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملا دے بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کر دے۔ بے شک وہ علم و قدرت والا ہے‘‘ اگرچہ بیٹیوں کی پیدائش پر مغموم و دل گرفتہ ہونا قبل از اسلام میں ایک عام سی بات تھی۔ حتیٰ کہ زمانہ جاہلیت میں ایسے سنگدل عربوں کی کمی نہ تھی جو معصوم پھول سی بچیوں کو زندہ درگورکردیاکرتے تھے۔ قبول اسلام کے بعد یہ صحابہ جب اپنی سنگدلی کا کوئی واقعہ جناب مصطفی ﷺ کو سناتے تو آپؐ کی ریش مبارک آنسوئوں سے بھیگ جاتی۔ میرے قیام سعودی عرب کے دوران جدہ کے خطیب نے خطبئہ جمعہ میں ایک سچا واقعہ بیان کیا۔ انہوں نے بتایا کہ شہر کے ایک بڑے پرائیویٹ ہسپتال میں ایک گائنا کالوجسٹ ڈاکٹر ان کا دوست ہے۔ اس نے انہیں بتایا کہ ان کے شعبے میں ایک خاتون کے ہاں چوتھی بیٹی کی پیدائش ہوئی تو خاتون نے رو رو کر ہسپتال کو سر پر اٹھا لیا۔ ڈاکٹر نے خاتون کو حوصلہ دے کر پوچھا کہ وہ کیوں اتنا جزع فزع کر رہی ہے؟عورت نے ڈاکٹر کو بتایا کہ میرے میاں نے مجھے نہایت سنجیدگی اور سنگدلی سے یہ دھمکی دے رکھی ہے کہ اگر اس بار بھی بیٹی پیدا ہوئی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا اورآنے والی بچی سمیت تمہیں گھر سے بے دخل کر دوں گا۔ دیندار ڈاکٹر نے کہا تم فکر نہ کرو ‘‘،’’ڈاکٹر نے خاتون کے شوہر کو فون کیا اور اسے بتایا کہ اللہ نے تمہیں بیٹا دیا ہے مگر وہ ذہنی طور پر مفلوج اور جسمانی طور پر معذور ہے۔ یہ سن کر اس عورت کا شوہر ٹیلی فون پر ہی دھاڑیں مار مار کر رونے لگااور نہایت غمزدہ و افسردہ ہو گیا۔ ڈاکٹر نے اسے کہا کہ سیدھے میرے پاس کلینک میں آئو تاکہ میں تمہیں مزید تفصیل بتا سکوں۔ وہ شخص نہایت ماتمی شکل میں ڈاکٹر کے پاس پہنچا اور کہنے گا۔’’یاد کتور! میرے مولا نے یہ میرے ساتھ کیا کیا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ مولا تو اپنی حکمت کے ساتھ اپنے بندوں کے ساتھ اچھا ہی کرتا ہے مگر بندے اپنی جہالت اور نادانی سے خدا کی خدائی میں دخل اندازی شروع کر دیتے ہیں۔ جب وہ شخص ’’معذور و مفلوج بیٹے‘‘ کو دیکھنے پر آمادہ نہ ہوا تو ڈاکٹر نے اسے ساری اصل حکایت کہہ سنائی۔ یہ سن کر وہ شخص بہت خوش ہوا اس نے اٹھ کر ڈاکٹر کے سر کو بوسہ دیا اور اس کا ہزار ہزار شکر ادا کیا۔ اس نے کہا ڈاکٹر تم نے میری عقل پر پڑا ہوا پردہ ہٹا دیا ہے۔ اس کے بعد اس شخص نے اپنی پیاری سی نومولود بچی کو بہت پیار کیا اور اپنی بیوی کو نہایت عزت و احترام کے ساتھ گھر لے کر گیا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے ان خطیبوں پر کہ جو اولاد صالح کے ساتھ اولاد نرینہ کی دعا بھی بڑھا دیتے ہیں۔ اگر واقعی ان کی دعائیں قبول ہو جائیں تو نسل انسانی آگے کیسے چلے۔ برطانیہ کی الیکس کے ہاں دس بیٹیوں کے بعد گیارہویں بچی کی پیدائش ہو یا شامی استاد کے ہاں دو بیویوں میں سے گیارہ بیٹیوں کی ولادت ہو یا مسز عبدالواجد کو نو دس برس تک بانجھ پن کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ یہ سب خالق کائنات کے حکم سے ہوتا ہے۔ عورتوں کو دھمکیاں دینے والے سنگدلوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ بیٹے‘ بیٹیوں کے فیصلے انسانوں کے بس کی بات نہیں۔