معاشرہ ذہنی پسماندگی کی حالت میں ہے۔ مگر ہم یہاں ہمہ وقت سیاست کا رونا روتے رہتے ہیں۔خبر نہیں کہ ہم ذہنی پسماندگی اور اندھا دھند نقالی کی اس سطح تک کیسے پہنچے کہ سوشل میڈیا پر ابھرنے والے جاہلانہ ٹرینڈز ہمارا طرز حیات بنتے جاتے ہیں۔جس ٹرینڈ میں جتنی عقل و شعور کی کمی ہو گی خیر سے ہمارے لوگوں کو اتنا ہی بھائے گا۔ مجھ جیسے جو سوشل میڈیا پر موجود ہو کر بھی اس کے ہر نئے رنگ میں رنگے جانے سے کچھ شعوری اور غیر شعوری طور پر گریز کی کیفیت میں رہتے ہیں۔ انہیں اس بے تکے ٹرینڈ ’’پاورری ہو رہی ہے‘‘ کی سمجھ نہیں آئی کہ یہ ہے کیا چیز اور اس میں ٹرینڈ بننے کی وجوہات کیا ہیں۔ جب آس پاس اس ہنگامے کا شور بڑھا اور ایک سینئر صحافی نے بھی اپنی ویڈیو اسی ٹرینڈ پر پوسٹ کی، تو میں نے اس ٹرینڈ بنانے والی لڑکی کی ویڈیو دیکھی اور کوشش کی کہ کچھ سمجھ میں آ جائے مگر اس میں کچھ ہوتا تو سمجھ آتا۔طالب علم‘ نوجوان‘ اداکار پڑھے لکھے لوگوں سب کا اس بے تکے پن کا شکار ہونا ناقابل فہم ہے نہ اس میں کوئی بات منفرد اور اچھوتی نہ حس جمالیات کا کوئی انوکھا عکس۔ پھر کیا بات ہے کہ سب دیکھا دیکھی ایک کام دہرا رہے ہیں۔ زوال تو یہ ہے کہ اس بے ڈھنگی اور بے تکی ویڈیو کو بنانے والی لڑکی۔ ہر ٹی وی چینل پر بطور خاص مہمان بلائی جا رہی ہے۔ لائیو انٹرویوز نشر ہو رہے ہیں۔ پرائم ٹائم کے پروگراموں میں اس سے بات چیت کے لئے وقت لیا جا رہا ہے اور اسے سیلیبرٹی کا اعزاز مل چکا ہے۔ ایسی ہی ایک سیلیبرٹی پچھلے دنوں ہی دریافت ہوئی تھی ،ایک بیوقوف سی بے تحاشا بولنے والی لڑکی جو خود تماشا بنانے پر ہر صورت آمادہ تھی ،پورے کا پورا میڈیا اس کے پیچھے تھا۔مارننگ شوز میں آئے دن اسے بلایا گیا۔ خبروں کے بلیٹن کے درمیان میں اس کی رونمائی کی گئی۔ اب میڈیا کا یہی معیار رہ گیا ہے بلکہ معیار کا لفظ بھی یہاں اضافی ہے۔ عرصہ ہوا کہ ٹاک شوز اور بے تکے مارننگ شوز دیکھنا چھوڑ دیے۔ ایک دو کے علاوہ ٹاک شوز کے کچھ حصے دیکھ لئے یا پھر خبروں کے ضروری بلیٹن سن لئے۔ اس کے علاوہ ٹاک شوز سے لے کر ٹی وی ڈراموں تک‘بیزار کر دینے والی نقالی اور مواد کی جگالی۔ طبیعت پر گراں گزرتی ہے۔وقت گزارنے کے اس سے بہتر آپشن موجود ہیں۔ ٹی وی میڈیا کو جن رجحانات نے زوال کی اس سطح تک پہنچایا اور ہم جیسے لوگوں کا دل اس سے اچاٹ ہوا، اس پر میں دل ہی دل میں شکرگزار ہوں کہ ٹی وی بہت سے تخلیقی مشاغل کو ہڑپ کرنے والا میڈیم ہے۔ اگر اس سے دل نہ بھرتا تو میں کبھی بھی کینوس رنگوں اور برش کی دنیا دریافت نہ کرتی اور کبھی نہ جان پاتی کہ رنگ اور برش سے کینوس پر کائنات تخلیق کرنا کس قدر تسکین بخش عمل ہے۔ بات کسی دوسری طرف چلی گئی۔ کالم لکھنے کا محرک یہ ہے کہ آخر ہم اپنی قوم کے ذوق اور شعور کو کس طرح جلا بخشیں۔ کون سے عوامل ایسے ہو سکتے ہیں کہ ہم تھوڑے سے بڑے ہو جائیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری قوم‘ شعوری طور پر منہ بسورتے ایک ننھے بچے کی طرح ہے جو نیکر شرٹ پہنے ۔گلے میں بستہ ڈالے۔ سکول کے دروازے پر کھڑا سکول نہ جانے کی ضد کر رہا ہے اسی عمر کے بچے اسی بے تکی چیزوں پر کھلکھلا کر ہنس سکتے ہیں۔ 20فروری کو دنیا لیری ٹیسلر کو یاد کر رہی ہے جو کمپیوٹر کی دنیا میں کٹ‘ کاپی‘ پیسٹ(cut copy paste)کا موجد تھا۔ دنیا نے تو اس سے مثبت انداز میں فائدہ اٹھایا ہو گا مگر اتنا نہیں جتنا ہم پاکستانیوں نے لیری ٹیسلر کی اس ایجاد کو استعمال کیا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ سوشل میڈیا پہ دانشور بننے کی شوقین قوم کی ساری دانشوری اب کاپی پیسٹ کے گرد گھومتی ہے دوسروں کی تحریروں کو کاپی پیسٹ کر کے اپنے نام کے ساتھ سوشل میڈیا پر لگانا ہمارا طرہ امتیاز ہے۔ لیری ٹیسلر کو اگر اپنی اس انقلابی اور انتہائی مفید ایجاد کے اس استعمال کی خبر پہلے ہو جاتی تو موصوف اس جرم میں خود کو قصور وار سمجھنے لگتے ،جو جرم یہاں دوسروں کی تحریروں کو کاپی پیسٹ کر کے اپنا بنانے میں روا رکھا جاتا ہے۔ دوسروں کی تحریر جب آپ اپنی وال پر لگائیں تو لکھاری کا نام سب سے اوپر لکھیں جب لکھاری کا نام تحریر کے سب سے نیچے درج ہوتا ہے تو پڑھنے والا مغالطے میں اسے اسی شخص کی تحریر سمجھنے لگتا ہے جس نے اسے اپنی وال پر کاپی پیسٹ کرکے لگایا ہوتا ہے یہ بھی ایک طرح کی بددیانتی ہے اور ایک دیانت دار شخص کبھی ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ اصل لکھاری کا نام نیچے نظر آنے تک تحریر کا کریڈٹ کاپی پیسٹر لے چکا ہوتا ہے۔ یہ رجحان بہت عام ہے، تھوڑے تھوڑے چور‘ چھوٹے چھوٹے ڈاکو ہم سارے ہی ہیں۔ سوشل میڈیا کا آئینہ بڑا ظالم ہے، کسی بھی قوم کی سچی اور صاف تصویر تو کیا ،ایکسرے کھینچ کر رکھ دیتا ہے۔ کبھی سوچیں کہ ہم سوشل میڈیا کے آئینے سے خود کو دیکھیں تو کیسی قوم دکھائی دیتے ہیں۔بہت سنبھل کر بھی بولوں تو ہم آئینے سے ایک ایسی قوم دکھائی دیتے ہیں جس کی کوئی سمت نہیں۔کاپی پیسٹر لوگ مکھی پر مکھی مارنے کے شوقین کچھ کچھ نفسیاتی مریض۔ نرگیست کے مارے ہوئے ہر وقت اپنی سیلفیاں اپ لوڈ کر کے تعریفیں سننے والے۔ روزانہ کی بنیاد پر آنے والی خبروں کی ڈگڈگی پر ناچنے والے۔ راہ فرار پر رواں دواں اخلاقی زوال کے المیے سے دوچار معاشرے کے باسی ۔!! جو بے تکے ٹرینڈز اور نقالی کو اپنا طرز حیات بنا چکی ہے۔