پاکستان میں اڑتالیس ہزار بڑے دیہات اور تقریباً چار سو چھوٹے شہر ہیں لیکن ان سب پر پانچ بڑے شہروں کی حکمرانی ہے۔ اسلام آباد‘لاہور‘ کراچی ‘پشاور اور کوئٹہ میں بیٹھے حکمرانوں نے تمام حکومتی اختیارات اورریاست کے مالی وسائل پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ملک کے دو تہائی شہری دیہات اورقصبوں میں رہتے ہیں ‘وہ چند بڑے شہروں کے رحم و کرم پر زندگی گزار رہے ہیں۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ ملک کے انتظام و انصرام اور امن و امان کے قیام کے لیے وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ چار صوبائی حکومتیں اور گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی نیم خود مختار حکومتیں قائم ہیں۔ملک کے چار صوبوں کی جسامت بہت بڑی ہے اور آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔1947میں قیام پاکستان کے وقت اس خطہ کی آبادی تقریباً تین کروڑ سینتیس لاکھ تھی۔ بہتر برسوں میں ملک میں رہنے والوں کی تعداد تو چھ گنا سے زیادہ ہوگئی لیکن اس عرصہ میں حکومت کے ڈھانچہ اور طاقت کے مراکز میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں کی گئی جس سے بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کوبہتر انداز میں پورا کیا جاسکتا۔یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انتظامی ڈھانچہ میں بہتری کی بجائے خرابی آتی گئی جسکا مظاہرہ ہم ہر طرف پھیلی کرپشن‘ بدانتظامی کی صورت میں دیکھتے ہیں۔ صرف انتظامی اختیارات کی بات نہیں ‘ معاشی وسائل پر بھی بڑے شہروں کا قبضہ ہے۔ عرصہ دراز سے دیہات کی دولت بڑے شہروں کو منتقل کی جارہی ہے۔ زمیندار دیہات کی آمدن سے کراچی‘ لاہور‘ پشاور میں بنگلے بناتے ہیں ‘ پر تعیش زندگی گزارتے ہیں ۔ حکومت جو ٹیکس وصول کرتی ہے اسکا بیشترحصہ اسلام آباد‘ لاہور‘ پشاور میں خرچ کیا جاتا ہے۔ دیہات اورچھوٹے شہربھینس کو چارہ کھلاتے ہیں جبکہ اسکا دودھ بڑے شہر پیتے ہیں۔ اگلے روز وفاقی حکومت کے ترجمان شہباز گل نے سندھ کے ضلع جیکب آباد کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوراٹرہسپتال کا دورہ کیا تو دیکھا کہ ہسپتال کا وجود برائے نام تھا ‘ کوئی ڈاکٹر تک موجودنہ تھا۔ ان کی آمد کی خبر سن کر ایک ڈاکٹر گھر سے بھاگا بھاگا ہسپتال پہنچا۔ شہباز گل نے شکوہ کیا کہ اس ہسپتال میں کورونا وبا تو دُور کی بات ہے کسی عام مرض کا علاج بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کم و بیش یہی حال سندھ کے دیگر ضلعی‘ تحصیل ہسپتالوں ‘ رورل ہیلتھ سنٹروں اوردیہی صحت مراکز کا ہے۔ سندھ حکومت ضلعی ہسپتالوں پر ہر سال اربوں روپے خرچ کرتی ہے لیکن ان کی بد انتظامی ‘ غیر موثر نگرانی کے باعث عوام کو علاج معالجہ کی سہولیات دستیاب نہیں ہوتیں۔ دیگر صوبوں کا حال بھی کچھ زیادہ اچھا نہیں۔ انیس بیس ہی کا فرق ہے۔دیہات اور چھوٹے شہروں کے سرکاری ہسپتالوں میں ایکسرے مشینیں خراب اور ڈاکٹروں کی آسامیاں خالی پڑی رہتی ہیں‘ دواؤں کی قلت رہتی ہے۔ ان سب چیزوںکے لیے فائلیں ہسپتال انتظامیہ سے ہیلتھ ڈائریکٹوریٹ اور پنجاب سیکرٹریٹ میں گھومتی رہتی ہیں۔ افسر شاہی کا ایک گھن چکر ہے جس میں ہسپتال ہوں یا تعلیمی ادارے عوام کو سہولت پہنچانے کے بجائے اِنکے لیے اذیت رسانی اور رشوت خوری کے مراکز میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے پچیس لاکھ ملازمین کی تنخواہوں پر قومی خزانہ سے اس سال اڑھائی ہزار ارب روپے خرچ کیے جائیں گے لیکن اس رقم کے بدلے عوام کو سروس کی بجائے ذلت و رسوائی ملتی ہے۔ ملک میں پھیلی بدانتظامی کی ایک بڑی وجہ اقتدار کے مراکز یعنی پانچ بڑے شہروں کی عوام سے دُوری اور فاصلہ ہے۔ ملک کی نصف آبادی تقریبا اڑتالیس ہزار دیہات میں رہتی ہے اور پچیس فیصد آبادی چھوٹے شہروں میں۔ گویا ملک کے دو تہائی شہری حق حکمرانی سے محرو م ہیں۔ صوبائی دارلحکومتوں میںبیٹھی اشرافیہ انکی قسمت کے فیصلے کرتی ہے۔ کسی چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے بھی اسلام آباد‘لاہور یا کراچی کی بیوروکریسی اور وزرا ء کی رضا مندی درکار ہوتی ہے۔ ایک دُور دراز علاقہ میں کسی ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر کا تقرر ہو یا اسکول میں کلاس روم بنانا ہو اسکی حتمی منظوری اور فنڈز صوبائی دارلحکومت سے آتے ہیں ۔ لاہور سے سینکڑوں کلومیٹر دور کسی علاقہ میں محکمہ ماحولیات یا محکمہ زراعت کا افسر رشوت خوری کا بازار گرم کیے ہوئے ہو تو شکایت کا ازالہ لاہور میں بیٹھا سیکرٹری کرسکتا ہے۔ اختیارات کی چند بڑے شہروں میں ارتکاز پر مبنی یہ ایک بہت تکلیف دہ ‘ غیر موثرنظامِ حکومت ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میںاقتدار کی مرکزیت کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ مقامی حکومتوںکا نیا نظام لایا گیا جس میں گیارہ صوبائی محکموں کے اختیارات ضلعی سطح تک منتقل کیے گئے ۔ سیاستدانوں اور افسر شاہی نے اسکی سخت مزاحمت کی اور موقع ملتے ہی یہ نظام ختم کردیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مشرف دور کے مقامی حکومتوں کے نظام کی کمزوریوں کو دُور کیا جاتا اور مزید اختیارات نچلی سطح پر منتقل کیے جاتے لیکن نام نہاد جمہوری حکومتوں نے ایسے بلدیاتی قوانین بنائے جن میںانکے اختیارات انگریز دور کے نظام سے بھی کم ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو وسیع اختیارات حاصل ہوگئے لیکن صوبے اختیارات ضلعوں‘ تحصیلوں اور دیہات میں منتقل کرنے کے لیے تیار نہیں۔این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو وفاق کی مجموعی ٹیکس آمدن سے ستاون فیصد حصہ مل جاتا ہے لیکن صوبہ کے اندر جو ضلعے اور دیہات ہیں ان کو انکا منصفانہ حق نہیں ملتا۔ اسکا حل یہی ہے کہ آئین میںواضح طور پر درج کیا جائے کہ صوبائی حکومتیں اپنی آمدن میں ہرضلع کا حصّہ مقرر کرنے کی پابند ہوں گی۔ امریکہ ‘ یورپ کے جن ملکوں میںجمہوری نظام قائم ہے وہاں مقامی حکومتیں بہت بااختیار ہیں‘ عوام کے مسائل مقامی ادارے حل کرتے ہیں۔ پاکستان میں اقتدار پانچ بڑے شہروں میں مرتکز ہے۔ یہ ایک چھوٹے سے گروہ کی اجارہ داری کا نظام ہے۔اختیارات کی مرکزیت بے شمار مسائل کا باعث ہے۔اس نظام کے باعث ملک کے کئی حصّوں میں احساس محرومی نے جنم لیا ہے۔ ریاست سے بیگانگی پیدا ہوئی ہے۔ اس غیر مؤثر‘ ناکارہ نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔دیہات اور چھوٹے شہروں میں رہنے والی ملک کی دو تہائی اکثریت کو اس وقت تک اپنے حقوق نہیں مل سکتے جب تک حکومتی نظام میں تبدیلی لا کر مقامی حکومتوں کو حقیقی معنوں میں با اختیار نہیں بنایا جاتا۔