حالیہ گلگت بلتستان کے انتخابات کے نتائج کودوبڑی پارٹیوں نے دھاندلی زَدہ قراردے کر مسترد کردیا۔انتخابات میں دھاندلی کا معاملہ آج کا نہیں ۔ملک میں عام انتخابات کی تاریخ پر نظردوڑائی جائے تو یہ مسئلہ سرفہرست رہا ہے۔مثال کے طورپر اُنیس سوستر کے انتخابات میں یہ مسئلہ د وصورتوں میں سامنے آیا۔نمبر ایک،مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے علاوہ دوسری جماعتیں انتخابی مہم ہی نہ چلا سکیں اور پولنگ ڈے پر دوسری جماعتوں کو ووٹ نہ پڑنے دیا گیا۔کئی مقامات پر ہنگامہ آرائی بھی ہوئی ۔نمبر دو،مغربی پاکستان میں دائیں نقطہ نظر کی جماعتوں کو یحییٰ خان کی جانب سے پرموٹ کرنے کی کوشش کی گئی اور اُنہیں فنڈ بھی دیا گیا۔یحییٰ خان نے دھاندلی کے لیے کاروباری طبقے کی خدمات بھی حاصل کیں،اُنہوں نے مختلف کاروباری طبقوں سے پیسے لے کر بھٹو اور مجیب کو انتخابات میں شکست دینے کے لیے قیوم خاں کومبینہ فنڈز فراہم کئے تھے،تاکہ بھٹو کو اقتدار میں آنے سے روکا جائے۔اصغر خان نے بھی یحییٰ خان کی جانب سے فنڈزکی پیشکش کا اعتراف کیا،لیکن اُنہوں نے فنڈنہ لیا۔تاہم دونوں حصوں میں مختلف شکلوں میں ہونے والی دھاندلی اس سطح کی نہیں تھی کہ مجموعی پیمانے پر انتخابی نتائج تبدیل ہوئے ہوں ۔اس دھاندلی سے انتخابی عمل پر جزوی طور پر اثر پڑااور کچھ سیٹیں متاثر ہوئیں۔ اُنیس سوستترکے عام انتخابات میں صورتِ حال کچھ اس طرح بن گئی کہ پیپلزپارٹی نے پنجاب کی ایک سو ،سولہ نشستوں میں ایک سوآٹھ نشستیں ،سندھ کی چونتیس نشستوں میں بتیس نشستیں،کے پی کے (سرحد )کی چھبیس میں آٹھ نشستیں اور بلوچستا ن کی سات پوری حاصل کرلیں۔اُنیس سوستتر کے الیکشن کا اعلان جنوری میں بھٹو صاحب نے کیا تھا۔انتخابات کے اعلان کے بعد بھٹو اور دوسرے لیڈر انتخابی مہم کے دوران یہ تقریروں میں کہتے ہوئے پائے جاتے رہے کہ انتخابات بالکل شفاف کروائے جائیں گے ۔دوسری طرف الیکشن کمیشن بھی شفاف اور دھاندلی سے پاک انتخابات کی گارنٹی دے رہا تھا۔ذوالفقار علی بھٹو اور الیکشن کمیشن بار بار یہ اعادہ کررہے تھے کہ الیکشن شفاف ہوں گے۔الیکشن کمیشن نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ شفاف انتخابات کے لیے مشینری مہیا کر دی گئی ہے۔مگر اپوزیشن کے مطابق پس پردہ ایسے انتظا مات بھی کیے جارہے تھے ،جو منظم دھاندلی کی عکاسی کررہے تھے۔ یوں اُنیس سوستتر کے الیکشن میں دھاندلی نے جمہوری عمل کو شدید نوعیت کا نقصان پہنچایا۔ انتخابات دھاندلی کی بدولت متنازعہ ہوئے تو صورتِ حال روزبہ روز کشیدہ ہوتی چلی گئی ۔جس کا نتیجہ مارشل لا ء کی صورت میں نکلا۔ ضیاء نے اُنیس سوپچاسی کے انتخابات کو تین طرح سے دھاندلی زَدہ بنایا۔اوّل:دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی پراپیگنڈے سے تربیت کے ذریعے۔دوم:انتخابات کو غیر جماعتی بنیادوں پر قرار دے کر۔سوم:پیپلزپارٹی کا مواخذہ کرکے۔ اَٹھاسی کے الیکشن میں دھاندلی کا قبیح ترین جو انداز اختیار کیا گیا ،وہ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر کی کردار کشی کی صورت میں تھا ۔حتیٰ کہ نصرت بھٹو کی نازیبا قسم کی تصاویر تک شائع کروائی گئیں اور یہ سب کچھ پری پول ہورہا تھا۔بے نظیر کے ساتھ ساتھ مرتضیٰ بھٹو کے خلا ف بھی میڈیا میں اشتہار بازی کروائی گئی ۔یعنی بھٹو خاندان کی کردارکشی کے ذریعے نفرت کی فضا پیدا کی گئی اور ساتھ ہی یہ تاثر دیا گیا کہ بے نظیر ملک دوست سیاست دان نہیں ہیں ،یہ دُشمنوں کے ساتھ ملی ہوئی ہیں ۔لیکن اس دھاندلی کے باوجود پی پی پی نے کامیابی سمیٹی البتہ پنجاب کا اقتدار انہیں نہ دیا گیا اور دھاندلی کی ایک شکل جاگ پنجابی جاگ کے صوبائی منافرت کے نعرے میں بھی پنہاں تھیں۔ پنجاب میں پولنگ ڈے پر دھاندلی کے شواہد بھی مختلف رپورٹس سے واضح ہیں ۔ اُنیس سونوے کے عام انتخابات میں آئی جے آئی نے معرکہ مارا،مگر یہ الیکشن بھی متنازعہ ہو گیا۔اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی غرض سے پیسے کا خوب استعمال کیا گیا ۔تاہم اسلامی جمہوری اتحاد ایک سو چھ نشستوں پر کامیاب ہوااور حکومت سازی نواز شریف کے حصہ میں آئی ۔اُنیس سونوے کے انتخابات میں مہران بینک اسیکنڈل سامنے آیا۔اُنہی دِنوں تحریکِ استقلال کے سربراہ اصغر خان نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی تھی۔دھاندلی زَدہ انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف کی حکومت بنی ،مگر یہ زیادہ عرصہ چل نہ سکی۔ اُنیس سوترانوے کے انتخابات میںبے نظیر برسرِ اقتدار آئیں ،مگر اس الیکشن میں بھی دھاندلی کا وہی طریقہ روا رکھا گیا جو اَٹھاسی اور نوے کے الیکشن میں روارکھا گیا تھا۔مگر یہ طریقہ زیادہ کامیاب نہ ہوسکا۔یوں اُنیس سوترانوے کے انتخابات کو بھی مکمل طور پر شفاف نہیں قرار دیا جاسکتا۔نوا زشریف زخم خوردہ تھے،وقت سے پہلے حکومت ختم ہو چکی تھی،ان کی حکومت کا خاتمے میں بھی ایوان صد نے اہم کردار ادا کیا تھا۔لیکن انتخابی مہم میں جس طریقے کی کمپین چلائی گئی ،وہ پیپلزپارٹی رہنمائوں کی کردار کشی کے حوالے سے تھی۔ اُنیس سوترانوے اور اُنیس سوستانوے کے انتخابات میں دھاندلی کے لیے پولنگ ڈے کوئی بڑی گڑبڑ رپورٹ نہیں ہوئی کہ جس کو دیکھ کر کہا جاسکے کہ انتخابات کے مجموعی نتائج متاثر ہوئے ہیں ۔البتہ ستانوے میں پری پول دھاندلی کا وہی طریقہ اختیار کیا گیا جو گذشتہ انتخابات میں عمل میں لایا گیا تھا ،یعنی پراپیگنڈے کے ذریعے ووٹرز کی ذہن سازی ۔جس کے تحت بے نظیر کو میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا سزاوار ٹھہرایا گیا اور نومولود پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے خلاف یہودی لابی کا بیانیہ بیچا گیا۔ دوہزار دوکے انتخابات میں دھاندلی کی سب سے اہم شکل سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ کے ذریعے ایک نئی سیاسی پارٹی کاوجود تشکیل دیا جانا تھا۔سیاست دانوں پر طرح طرح کی پابندیاں لگائی گئیں ،اُنہیں بلیک میل کیا جاتارہا،اس طرح مختلف جماعتوں سے سیاست دانوں کو توڑ کر نئی سیاسی جماعت میں لایا گیا۔یہ عمل ہی انتخابات میں دھاندلی کا مظہر تھا۔گذشتہ روزوزیرِ اعظم عمران خان نے اپوزیشن جماعتوں کو انتخابی اصلاحات کے لیے جو دعوت دی ہے ،اُنہیں فوری قبول کرلینی چاہیے۔